(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، عن سماك بن حرب، عن جابر بن سمرة، ان رجلا نزل الحرة ومعه اهله وولده، فقال رجل: إن ناقة لي ضلت فإن وجدتها فامسكها، فوجدها فلم يجد صاحبها، فمرضت، فقالت امراته: انحرها، فابى، فنفقت، فقالت: اسلخها حتى نقدد شحمها ولحمها وناكله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاتاه، فساله، فقال:" هل عندك غنى يغنيك؟، قال: لا، قال: فكلوها، قال: فجاء صاحبها فاخبره الخبر، فقال: هلا كنت نحرتها، قال: استحييت منك". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، أَنَّ رَجُلًا نَزَلَ الْحَرَّةَ وَمَعَهُ أَهْلُهُ وَوَلَدُهُ، فَقَالَ رَجُلٌ: إِنَّ نَاقَةً لِي ضَلَّتْ فَإِنْ وَجَدْتَهَا فَأَمْسِكْهَا، فَوَجَدَهَا فَلَمْ يَجِدْ صَاحِبَهَا، فَمَرِضَتْ، فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ: انْحَرْهَا، فَأَبَى، فَنَفَقَتْ، فَقَالَتْ: اسْلُخْهَا حَتَّى نُقَدِّدَ شَحْمَهَا وَلَحْمَهَا وَنَأْكُلَهُ، فَقَالَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَاهُ، فَسَأَلَهُ، فَقَالَ:" هَلْ عِنْدَكَ غِنًى يُغْنِيكَ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: فَكُلُوهَا، قَالَ: فَجَاءَ صَاحِبُهَا فَأَخْبَرَهُ الْخَبَرَ، فَقَالَ: هَلَّا كُنْتَ نَحَرْتَهَا، قَالَ: اسْتَحْيَيْتُ مِنْكَ".
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنے اہل و عیال کے ساتھ حرہ میں قیام کیا، تو ایک شخص نے اس سے کہا: میری ایک اونٹنی کھو گئی ہے اگر تم اسے پانا تو اپنے پاس رکھ لینا، اس نے اسے پا لیا لیکن اس کے مالک کو نہیں پاس کا پھر وہ بیمار ہو گئی، تو اس کی بیوی نے کہا: اسے ذبح کر ڈالو، لیکن اس نے انکار کیا، پھر اونٹنی مر گئی تو اس کی بیوی نے کہا: اس کی کھال نکال لو تاکہ ہم اس کی چربی اور گوشت سکھا کر کھا سکیں، اس نے کہا: جب تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ نہیں لیتا ایسا نہیں کر سکتا چنانچہ وہ آپ کے پاس آیا اور اس کے متعلق آپ سے دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس کوئی اور چیز ہے جو تجھے (مردار کھانے سے) بے نیاز کرے“ اس شخص نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تم کھاؤ“۔ راوی کہتے ہیں: اتنے میں اس کا مالک آ گیا، تو اس نے اسے سارا واقعہ بتایا تو اس نے کہا: تو نے اسے کیوں نہیں ذبح کر لیا؟ اس نے کہا: میں نے تم سے شرم محسوس کی (اور بغیر اجازت ایسا کرنا میں نے مناسب نہیں سمجھا)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 2150)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/87، 88، 89، 97، 104) (حسن الإسناد)»
Narrated Jabir ibn Samurah: A man alighted at Harrah with his wife and children. A man said (to him): My she-camel has strayed; if you find it, detain it. He found it, but did not find its owner, and it fell ill. His wife said: Slaughter it. But he refused and it died. She said: Skin it so that we may dry its fat and flesh and then eat them. He said: Let me ask the Messenger of Allah ﷺ. So he came to him (the Prophet) and asked him. He said: Have you sufficient for your needs? He replied: No. He then said: Then eat it. Then its owner came and he told him the story. He said: Why did you not slaughter it? He replied: I was ashamed (or afraid) of you.
USC-MSA web (English) Reference: Book 27 , Number 3807
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3816
فوائد ومسائل: 1۔ جب آدمی از حد لاچار ہوجائے۔ اور کھانے کو کچھ نہ پائے تو اس کےلئے مردارکھانا جائز ہو جاتا ہے۔
2۔ یہ فطری اور شرعی حیا تھی کہ انتہائی مجبوری کے عالم میں بھی یہ شخص دوسروں کا مال کھانے کا روادار نہ ہوا۔ اور یہ ایمان کا حصہ ہے۔
3۔ یہ شخص ایسا پکا کھرا پابند شریعت مومن اور رسول اللہ ﷺ کا مطیع وفرمان بردار تھا کہ اس لاچاری کی کیفیت میں بھی اس نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت لی۔ اور اس حالت میں بھی لوگوں سے مانگنے کی ذلت قبول نہیں کی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3816