مالک بن ابی مریم کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن غنم ہمارے پاس آئے تو ہم نے ان سے طلاء ۱؎ کا ذکر کیا، انہوں نے کہا: مجھ سے ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”میری امت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے لیکن اس کا نام شراب کے علاوہ کچھ اور رکھ لیں گے ۲؎“۔
وضاحت: ۱؎: طلاء: انگور سے بنا ہوا ایک قسم کا شیرہ ہے۔ ۲؎: جیسے اس زمانے میں تاڑی اور بھانگ استعمال کرنے والے اسے شراب نہیں سمجھتے حالانکہ ہر نشہ لانے والی چیز شراب ہے اور وہ حرام ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الفتن 22 (4020)، (تحفة الأشراف: 12162)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/342) (صحیح)»
Narrated Abdur Rahman ibn Ghanam: Malik ibn Abu Maryam said: Abdur Rahman ibn Ghanam entered upon us and we discussed tila' and he said: Abu Malik al-Ashari told me that he heard the Messenger of Allah ﷺ say: Some of my people will assuredly drink wine calling it by another name.
USC-MSA web (English) Reference: Book 26 , Number 3680
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح (4292) وللحديث شواھد عند ابن ماجه (3385 وسنده حسن) وغيره
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4020
´سزاؤں کا بیان۔` ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سے کچھ لوگ شراب پئیں گے، اور اس کا نام کچھ اور رکھیں گے، ان کے سروں پر باجے بجائے جائیں گے، اور گانے والی عورتیں گائیں گی، تو اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے گا، اور ان میں سے بعض کو بندر اور سور بنا دے گا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4020]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ خواہ اس کا کوئی نام رکھ لیاجائے۔
(2) نام بدلنے سے چیز کا شرعی حکم تبدیل نہیں ہوجاتا۔ جیسے کہ سود کو منافع کہے یا مارک اپ وہ سود ہی رہتا ہے۔
(3) حیلے سے حرام چیز حلال نہیں ہوجاتی ہے بلکہ جرم زیادہ شدید ہوجاتا ہے۔
(4) ساز بجانا اور سننا حرام ہے۔
(5) ساز کے ساتھ اچھے شعر بھی سنے جائیں تو جائز نہیں ہوں گے۔ بعض لوگ سازوں کے ساتھ نعت پڑھتے اور سنتے ہیں۔ یہ رسول اللہﷺ کی محبت نہیں بلکہ گستاخی ہے اور اگر ان کا مفہوم شرکیہ ہوتو گناہ اور زیادہ سنگین ہوجاتا ہے۔
(6) اس امت میں زمین میں دھنس جانے اورصورت تبدیل ہوکر بندر یا خنزیر بن جانے والے واقعات پیش آئینگے۔ اللہ تعالی محفوظ رکھے۔
(7) پہلے سے خبر دینے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی مسلمان لاعلمی میں وہ جرم نہ کربیٹھے جس سے وہ اس سزا کا مستحق ہوجائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4020