(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن رجل نجراني، عن ابن عمر، ان رجلا اسلف رجلا في نخل، فلم تخرج تلك السنة شيئا، فاختصما إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: بم تستحل ماله اردد عليه ماله؟ ثم قال: لا تسلفوا في النخل حتى يبدو صلاحه". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ رَجُلٍ نَجْرَانِيٍّ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلًا أَسْلَفَ رَجُلًا فِي نَخْلٍ، فَلَمْ تُخْرِجْ تِلْكَ السَّنَةَ شَيْئًا، فَاخْتَصَمَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: بِمَ تَسْتَحِلُّ مَالَهُ ارْدُدْ عَلَيْهِ مَالَهُ؟ ثُمَّ قَالَ: لَا تُسْلِفُوا فِي النَّخْلِ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک شخص سے کھجور کے ایک خاص درخت کے پھل کی بیع سلف کی، تو اس سال اس درخت میں کچھ بھی پھل نہ آیا تو وہ دونوں اپنا جھگڑا لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیچنے والے سے فرمایا: ”تم کس چیز کے بدلے اس کا مال اپنے لیے حلال کرنے پر تلے ہوئے ہو؟ اس کا مال اسے لوٹا دو“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھجوروں میں جب تک وہ قابل استعمال نہ ہو جائیں سلف نہ کرو“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/التجارات 61 (2284)، (تحفة الأشراف: 8595)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/البیوع 21 (49)، مسند احمد (2/25، 49، 51، 58، 144) (ضعیف)» (اس کی سند میں ایک راوی رجل نجرانی مبہم ہیں)
Narrated Abdullah ibn Umar: A man paid in advance for a palm-tree. It did not bear fruit that year. They brought their case for decision to the Prophet ﷺ. He said: for which do you make his property lawful? He then said: Do not pay in advance for a palm-tree till they (the fruits) were clearly in good condition.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3460
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن ماجه (2284) رجل نجراني: مجهول (عون المعبود 293/3) وأبو إسحاق عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 124
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3467
فوائد ومسائل: 1۔ یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ تاہم مسئلہ یہی ہے کہ تاجر اگر مطلوبہ مال مہیا کرنے سے عاجز رہے تو صرف وصول کردہ قیمت واپس کی جائے گی۔
2۔ خاص درخت یا باغ کی بیع سلم اس لئے روک دیا گیا کہ اس میں نقصان کا پہلو موجود ہے۔ پتہ نہیں اس پر پھل آئے گا یا نہیں۔ کم آئے گا یا زیادہ؟ اس لئے عمومی معاملہ ہونا چاہیے نہ کہ خاص۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3467