سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
Commercial Transactions (Kitab Al-Buyu)
32. باب فِي التَّشْدِيدِ فِي ذَلِكَ
32. باب: بٹائی کی ممانعت کا بیان۔
Chapter: Regarding The Stern Warning Concerning That.
حدیث نمبر: 3398
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان، عن منصور، عن مجاهد، ان اسيد بن ظهير، قال: جاءنا رافع بن خديج، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم،" ينهاكم عن امر كان لكم نافعا، وطاعة الله وطاعة رسول الله صلى الله عليه وسلم انفع لكم، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهاكم عن الحقل، وقال: من استغنى عن ارضه، فليمنحها اخاه او ليدع"، قال ابو داود: وهكذا رواه شعبة، ومفضل بن مهلهل،عن منصور، قال شعبة: اسيد ابن اخي رافع بن خديج.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، أَنَّ أُسَيْدَ بْنَ ظُهَيْرٍ، قَالَ: جَاءَنَا رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" يَنْهَاكُمْ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَكُمْ نَافِعًا، وَطَاعَةُ اللَّهِ وَطَاعَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْفَعُ لَكُمْ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَاكُمْ عَنِ الْحَقْلِ، وَقَالَ: مَنِ اسْتَغْنَى عَنْ أَرْضِهِ، فَلْيَمْنَحْهَا أَخَاهُ أَوْ لِيَدَعْ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَكَذَا رَوَاهُ شُعْبَةُ، وَمُفَضَّلُ بْنُ مُهَلْهَلٍ،عَنْ مَنْصُورٍ، قَالَ شُعْبَةُ: أُسَيْدٌ ابْنُ أَخِي رَافِعِ بْنِ خَديِجٍ.
اسید بن ظہیر کہتے ہیں ہمارے پاس رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو ایک ایسے کام سے منع فرما رہے ہیں جس میں تمہارا فائدہ تھا، لیکن اللہ کی اطاعت اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تمہارے لیے زیادہ سود مند ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو «حقل» سے یعنی مزارعت سے روکتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنی زمین سے بے نیاز ہو یعنی جوتنے بونے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنی زمین اپنے کسی بھائی کو (مفت) دیدے یا اسے یوں ہی چھوڑے رکھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح سے شعبہ اور مفضل بن مہلہل نے منصور سے روایت کیا ہے شعبہ کہتے ہیں: اسید رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے بھتیجے ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/المزارعة 2 (3894)، سنن ابن ماجہ/الرھون 10 (2460)، (تحفة الأشراف: 3549)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ کراء الأرض 1 (1)، مسند احمد (3/464، 465، 466) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Usaid bin Zuhair: Rafi bin Khadij came to us and said: The Messenger of Allah ﷺ forbids you from a work which is beneficial to you ; and obedience to Allah and His Prophet ﷺ is more beneficial to you. The Messenger of Allah ﷺ forbids you from renting land for share of its produce and he said: If anyone if not in need of his land he should lend it to his brother or leave it. Abu Dawud said: Shubah and Mufaddal bin Muhalhal have narrated it from Mansur in similar way. Shubah said (in his version): Usaid, nephew of Rafi b, Khadij.
USC-MSA web (English) Reference: Book 22 , Number 3392


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
حديث مفضل بن مھلھل رواه النسائي (3894 وسنده صحيح)

   سنن أبي داود3398أسيد بن ظهيرينهاكم عن الحقل من استغنى عن أرضه فليمنحها أخاه أو ليدع
   سنن ابن ماجه2460أسيد بن ظهيرمن استغنى عن أرضه فليمنحها أخاه أو ليدع
   سنن النسائى الصغرى3895أسيد بن ظهيرمن كانت له أرض فليمنحها أو ليدعها نهى عن المزابنة المزابنة الرجل يكون له المال العظيم من النخل فيجيء الرجل فيأخذها بكذا وكذا وسقا من تمر
   سنن النسائى الصغرى3896أسيد بن ظهيرنهاكم رسول الله عن الحقل الحقل المزارعة بالثلث والربع من كان له أرض فاستغنى عنها فليمنحها أخاه أو ليدع نهاكم عن المزابنة المزابنة الرجل يجيء إلى النخل الكثير بالمال العظيم فيقول خذه بكذا وكذا وسقا من تمر ذلك العام

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3398 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3398  
فوائد ومسائل:

علامہ شوکانی نیل الاوطار میں لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مختصر روایت آئی ہے۔
تفصیلی روایت میں اسید بن ظہیر کا کلام یوں ہے۔
ہم میں سے جب کوئی اپنی زمین کو خود کاشت نہ کرنا چاہتا۔
یا اس کا ضرورت مند ہوتا تو وہ اسے آدھی تہائی یا چوتھائی پر بٹائی پر دے دیا کرتا تھا۔
اور تین باتوں کی شرط ہوتی تھی کہ نالوں کے ساتھ ساتھ کی کاشت غلہ گاہنے کے بعد نیچے جو باقی رہے گا۔
اور وہ قطعات جو نالوں سے سیرات ہوتے ہوں گے۔
(مالک کے ہوں گے) الخ (نیل الأوطار: 312/5 باب فسادالعقد إذا شرط أحدھما لنفسه التبن أو بقعة یعینھا ونحوہ)

ویسے چھوڑ دینے کی صورت میں بھی بہت سے فائدے ہیں۔
اس زمین میں اگنے والی گھاس جانورچرتے ہیں۔
فطری پودے اور ان میں رہنے والے چھوٹے بڑے جانور ماحولیات کے توازن کو برقرار رکھتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3398   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3895  
´زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
اسید بن ظہیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ آئے تو کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے معاملے سے منع فرمایا ہے جو ہمارے لیے نفع بخش تھا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، آپ نے تمہیں محاقلہ سے منع فرمایا ہے، آپ نے فرمایا: جس کی کوئی زمین ہو تو چاہیئے کہ وہ اسے کسی کو ہبہ کر دے یا اسے ایسی ہی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3895]
اردو حاشہ:
البتہ مزابنہ کی یہ صورت غریب لوگوں کے لیے تھوڑی مقدار میں (پندرہ بیس من تک) کھانے پینے کے لیے جائز ہے کیونکہ یہ ان کی مجبوری ہے اور شریعت مجبوریوں کا لحاظ رکھتی ہے۔ لیکن تجارتی بنیاد پر کثیر مقدار میں جائز ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3895   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2460  
´مکروہ مزارعت (بٹائی) کا بیان۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کسی کو زمین کی حاجت نہیں ہوتی تھی تو اسے تہائی یا چوتھائی یا آدھے کی بٹائی پردے دیتا، اور تین شرطیں لگاتا کہ نالیوں کے قریب والی زمین کی پیداوار، صفائی کے بعد بالیوں میں بچ جانے والا غلہ اور فصل ربیع کے پانی سے جو پیداوار ہو گی وہ میں لوں گا، اس وقت لوگوں کی گزر بسر مشکل سے ہوتی تھی، وہ ان میں پھاؤڑے سے اور ان طریقوں سے جن سے اللہ چاہتا محنت کرتا اور اس سے فائدہ حاصل کرتا، آخر رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں ایک کام سے جو تمہارے لیے مفید تھا منع فرما دیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2460]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نصف یا چوتھائی پیداوار کی جو شرط منع ہے وہ اس طرح ہے کہ زمین کےکسی خاص ٹکڑے کی پیداوار زمین کے مالک کے لیے ہو۔
مالک عموما ایسا ٹکڑا منتخب کرتا ہےتھا جوآبی گزر گاہ یا پانی کی نالی وغیرہ کےقریب واقع ہوتا اس لیے اس میں پیداوار زیادہ ہونے کی توقع ہوتی تھی۔

(2)
کھیت کی کل پیداوار میں سے نصف تہائی یا چوتھائی پیداوار کی شرط لگانا جائز ہے۔

(3)
بٹائی کی بجائے زمین عاریتاً دے دینا افضل ہے۔

(4)
رسول اللہ ﷺ کےحکم کی تعمیل دنیا کےظاہری مفاد سے زیادہ اہم ہے کیونکہ ارشاد نبوی کی تعمیل میں آخرت کا فائدہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2460   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.