الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
Commercial Transactions (Kitab Al-Buyu)
6. باب فِي كَرَاهِيَةِ الْيَمِينِ فِي الْبَيْعِ
6. باب: خرید و فروخت میں (جھوٹی) قسم کھانے کی ممانعت۔
Chapter: Regarding It Being Disliked To Swear Oaths When Buying And Selling.
حدیث نمبر: 3335
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن عمرو بن السرح، حدثنا ابن وهب. ح وحدثنا احمد بن صالح، حدثنا عنبسة، عن يونس، عن ابن شهاب، قال: قال ابن المسيب: إن ابا هريرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" الحلف منفقة للسلعة، ممحقة للبركة"، قال ابن السرح: للكسب، وقال: عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم.
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبسة، عن يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ: إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الْحَلِفُ مَنْفَقَةٌ لِلسِّلْعَةِ، مَمْحَقَةٌ لِلْبَرَكَةِ"، قَالَ ابْنُ السَّرْحِ: لِلْكَسْبِ، وقَالَ: عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (جھوٹی) قسم (قسم کھانے والے کے خیال میں) سامان کو رائج کر دیتی ہے، لیکن برکت کو ختم کر دیتی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/البیوع 26 (2087)، صحیح مسلم/المساقاة 27 (1606)، سنن النسائی/البیوع 5 (4466)، (تحفة الأشراف: 13321)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/235،242، 413) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Abu Hurairah: I heard Messenger of Allah ﷺ say: Swearing produces a ready sale for a commodity but blots out the blessing. The narrator Ibn al-Sarh said: "for earning". He also narrated this tradition from Saeed bin al-Musayyab on the authority of Abu Hurairah from the Prophet ﷺ.
USC-MSA web (English) Reference: Book 22 , Number 3329


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2087) صحيح مسلم (1606)

   صحيح البخاري2087عبد الرحمن بن صخرالحلف منفقة للسلعة ممحقة للبركة
   صحيح مسلم4125عبد الرحمن بن صخرالحلف منفقة للسلعة ممحقة للربح
   سنن أبي داود3335عبد الرحمن بن صخرالحلف منفقة للسلعة ممحقة للبركة
   سنن النسائى الصغرى4466عبد الرحمن بن صخرالحلف منفقة للسلعة ممحقة للكسب
   مسندالحميدي1060عبد الرحمن بن صخراليمين الكاذبة، منفقة للسلعة، ممحقة للكسب
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3335 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3335  
فوائد ومسائل:
مسلمان تاجر کو چاہیے کہ بے جا قسمیں کھانے کی عادت تبدیل کرے۔
اور صدقات دیا کرے تاکہ اس غلط عمل کا کفارہ ہوتا رہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3335   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4466  
´جھوٹی قسم کھا کر سامان بیچنے والے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم کھانے سے سامان بک تو جاتا ہے، لیکن کمائی (کی برکت) ختم ہو جاتی ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4466]
اردو حاشہ:
سامان بیچنے کے لیے جھوٹی قسم تو ایک طرف رہی، سچی قسمیں بھی نہیں کھانی چاہئیں کیونکہ جب قسم کھانے کی عادت بن جائے تو سچ جھوٹ کا امتیاز نہیں رہتا، نیز اس طرح اللہ تعالیٰ کے نام کی حرمت ختم ہو جاتی ہے۔ قسم اسی وقت کھائی جائے جب اس کے بغیر چارہ نہ رہے۔ برکت اٹھ جانے کا مفہوم دیکھئے حدیث نمبر: 4462 میں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4466   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1060  
1060- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: جھوٹی قسم سودا فروخت کروا دیتی ہے لیکن آمدن میں برکت کو مٹا دیتی ہے۔‏‏‏‏ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1060]
فائدہ:
جھوٹ کبیرہ گناہ ہے، جس چیز میں بھی بولا جائے تو اس کی برکت ختم ہو جاتی ہے، افسوس کہ آج کل ہر ہر کام میں جھوٹ کو عروج ہے، یہی وجہ ہے کہ آج برکت ختم ہے، اللہ تعالیٰ سچ کو لازم پکڑنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1060   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4125  
امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، قسم سامان کو قابل پذیرائی بنانے والی ہے، اور نفع کے مٹانے کا سبب ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4125]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
منفقة:
نفاق سے ماخوذ ہے،
جس کا معنی رواج دینا،
گاہکوں کے لیے پرکشش بنانا،
گویا مصدر میمی یہاں فاعل کے معنی میں ہے۔
(2)
ممحقة:
محق سے ماخوذ ہے،
مٹانا،
برباد کرنا۔
فوائد ومسائل:
سودے میں بلا ضرورت قسم اٹھانا جائز نہیں ہے،
کیونکہ جو انسان قسم اٹھانے کا عادی ہو جاتا ہے،
اس کے دل سے اللہ تعالیٰ کی ہیبت اور عظمت نکل جاتی ہے،
اور وہ لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے جھوٹی قسم اٹھانے لگتا ہے،
اس سے سودا تو بک جاتا ہے،
لیکن برکت ختم ہو جاتی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4125   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2087  
2087. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: "(جھوٹی)قسم کھانے سے مال تو فروخت ہو جاتا ہے لیکن وہ برکت کو ختم کردیتی ہے۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2087]
حدیث حاشیہ:
گو چند روز تک ایسی جھوٹی قسمیں کھانے سے مال تو کچھ نکل جاتا ہے لیکن آخر میں اس کا جھوٹ اور فریب کھل جاتا ہے اور برکت اس لیے ختم ہو جاتی ہے کہ لو گ اسے جھوٹا جان کر اس کی دکان پر آنا چھوڑ دیتے ہیں صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2087   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2087  
2087. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: "(جھوٹی)قسم کھانے سے مال تو فروخت ہو جاتا ہے لیکن وہ برکت کو ختم کردیتی ہے۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2087]
حدیث حاشیہ:
(1)
جس طرح جھوٹی قسم اٹھانے سے سوداگر کو خیروبرکت سے محروم کردیا جاتا ہے، اسی طرح سودی کاروبارکرنے والے کی برکت کواٹھالیا جاتا ہے،اگرچہ بظاہر سود لینے سے رقم زیادہ ہوجاتی ہے لیکن نتیجے کے لحاظ سے دنیاو آخرت میں نقصان ہوتا ہےجیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" سود سے اگرچہ رقم زیادہ ہوجاتی ہے مگر اس کا نتیجہ اور انجام قلت ہے۔
"(مسند احمد: 1/424) (2(سود کے مال میں برکت نہیں ہوتی "مال حرام بودبہ جائے حرام رفت"والی بات بن جاتی ہے۔
ویسے بھی جس معاشرے میں سود رائج ہوتا ہے وہاں غریب طبقے کی قوت خرید کم ہوتی ہے اور امیر طبقےکی تعداد قلیل ہونے کی وجہ سے گردش دولت کی رفتار بہت مست ہوجاتی ہے جس سے معاشی بحران پیدا ہوتے ہیں،امیر اور غریب میں طبقاتی جنگ شروع ہوجاتی ہے۔
بعض دفعہ غریب طبقہ تنگ آکر امیروں کو لوٹنا شروع کردیتا ہے۔
آقا اور مزدور میں کشیدگی پیدا ہونے سے بہت سے مہلک نتائج پیدا ہوسکتے ہیں۔
بہرحال سود کا انجام انتہائی گھناؤنا اور خطرناک ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2087   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.