(مرفوع) حدثنا عبد الوهاب بن نجدة، حدثنا سعيد بن سالم. ح وحدثنا يحيى بن الفضل السجستاني، حدثنا حاتم يعني ابن إسماعيل، بمعناه، عن كثير بن زيد المدني، عن المطلب، قال: لما مات عثمان بن مظعون، اخرج بجنازته فدفن، امر النبي صلى الله عليه وسلم رجلا ان ياتيه بحجر، فلم يستطع حمله، فقام إليها رسول الله صلى الله عليه وسلم، وحسر عن ذراعيه، قال كثير: قال المطلب: قال الذي يخبرني ذلك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: كاني انظر إلى بياض ذراعي رسول الله صلى الله عليه وسلم حين حسر عنهما، ثم حملها فوضعها عند راسه، وقال: اتعلم بها قبر اخي، وادفن إليه من مات من اهلي". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سَالِمٍ. ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْفَضْلِ السِّجِسْتَانِيُّ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيل، بِمَعْنَاهُ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ الْمَدَنِيِّ، عَنِ الْمُطَّلِبِ، قَالَ: لَمَّا مَاتَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ، أُخْرِجَ بِجَنَازَتِهِ فَدُفِنَ، أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا أَنْ يَأْتِيَهُ بِحَجَرٍ، فَلَمْ يَسْتَطِعْ حَمْلَهُ، فَقَامَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَسَرَ عَنْ ذِرَاعَيْهِ، قَالَ كَثِيرٌ: قَالَ الْمُطَّلِبُ: قَالَ الَّذِي يُخْبِرُنِي ذَلِكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِ ذِرَاعَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ حَسَرَ عَنْهُمَا، ثُمَّ حَمَلَهَا فَوَضَعَهَا عِنْدَ رَأْسِهِ، وَقَالَ: أَتَعَلَّمُ بِهَا قَبْرَ أَخِي، وَأَدْفِنُ إِلَيْهِ مَنْ مَاتَ مِنْ أَهْلِي".
مطلب کہتے ہیں جب عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کا جنازہ لے جایا گیا اور وہ دفن کئے گئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک پتھر اٹھا کر لانے کا حکم دیا (تاکہ اسے علامت کے طور پر رکھا جائے) وہ اٹھا نہ سکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف اٹھ کر گئے اور اپنی دونوں آستینیں چڑھائیں۔ کثیر (راوی) کہتے ہیں: مطلب نے کہا: جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث مجھ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں: گویا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں کی سفیدی جس وقت کہ آپ نے اسے کھولا دیکھ رہا ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اٹھا کر ان کے سر کے قریب رکھا اور فرمایا: ”میں اسے اپنے بھائی کی قبر کی پہچان کے لیے لگا رہا ہوں، میرے خاندان کا جو مرے گا میں اسے انہیں کے آس پاس میں دفن کروں گا ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بھائی فرمایا کہ وہ آپ کے رضاعی بھائی تھے، انہوں نے ساری عمر کبھی شراب نہیں پی، اور مہاجرین میں سب سے پہلے مدینہ میں انتقال ہوا اور بقیع میں تدفین ہوئی، اس سے معلوم ہوا کہ قبر کی شناخت کے لئے قبر کے پاس کوئی پتھر رکھنا یا کوئی تختی نصب کرنا درست ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15672) (حسن)» (متابعات و شواہد سے تقویت پا کر یہ صحیح بھی حسن ہے، ورنہ کثیر بن زید سے روایت میں غلطیاں ہو جایا کرتی تھی)۔
Narrated Al-Muttalib: When Uthman ibn Maz'un died, he was brought out on his bier and buried. The Prophet ﷺ ordered a man to bring him a stone, but he was unable to carry it. The Messenger of Allah ﷺ got up and going over to it rolled up his sleeves. The narrator Kathir told that al-Muttalib remarked: The one who told me about the Messenger of Allah ﷺ said: I still seem to see the whiteness of the forearms of the Messenger of Allah ﷺ when he rolled up his sleeves. He then carried it and placed it at his head saying: I am marking my brother's grave with it, and I shall bury beside him those of my family who die.
USC-MSA web (English) Reference: Book 20 , Number 3200
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (1711)
لما مات عثمان بن مظعون أخرج بجنازته فدفن أمر النبي رجلا أن يأتيه بحجر فلم يستطع حمله فقام إليها رسول الله وحسر عن ذراعيه قال كثير قال المطلب قال الذي يخبرني ذلك عن رسول الله قال كأني أنظر إلى بياض ذراعي رسول الله حين حسر عنهما ثم حملها فوضعها عند رأسه وقا
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3206
فوائد ومسائل: 1۔ قبر پرکوئی مناسب علامت رکھ دیناجائزہے۔ مگر کتبہ لگانا اور جھنڈا وغیرہ گاڑنا جائزنہیں۔ 2۔ انسان کو چاہیے کہ صالح ہمسائے کا انتخاب کرے حتی کہ قبر میں بھی کسی صالح بندے کی ہمسائیگی اختیار کرنا مستحب ہے۔ 3۔ حدیث کے الفاظ ادفن الیہ کا ایک ترجمہ وہ ہے جو یہاں کیا گیا۔ جس سے نیک لوگوں کے قریب دفن ہونے کاستحباب ثابت ہوتا ہے۔ اور دوسرے معنی کئے گئے ہیں کہ میں اس کے ساتھ ہی اپنے دوسرے اہل خانہ کو دفن کروں اس سے ایک ہی قبر میں متعدد افراد کو دفن کرنے کا اثابت ہوتا ہے۔ غالبا امام ابو دائود کے ذہن میں یہی مفہوم ہے اور اسی مفہوم کے مطابق انھوں نے باب باندھا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3206