سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
Funerals (Kitab Al-Janaiz)
32. باب فِي سَتْرِ الْمَيِّتِ عِنْدَ غَسْلِهِ
32. باب: میت کو غسل دیتے ہوئے اس کے لیے پردہ کرنا۔
Chapter: Covering The Deceased When Washing Him.
حدیث نمبر: 3141
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا النفيلي، حدثنا محمد بن سلمة، عن محمد بن إسحاق حدثني يحيى بن عباد، عن ابيه عباد بن عبد الله بن الزبير، قال: سمعت عائشة، تقول: لما ارادوا غسل النبي صلى الله عليه وسلم، قالوا: والله ما ندري، انجرد رسول الله صلى الله عليه وسلم من ثيابه كما نجرد موتانا، ام نغسله وعليه ثيابه؟ فلما اختلفوا القى الله عليهم النوم. حتى ما منهم رجل إلا وذقنه في صدره، ثم كلمهم مكلم من ناحية البيت، لا يدرون من هو: ان اغسلوا النبي صلى الله عليه وسلم وعليه ثيابه، فقاموا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فغسلوه وعليه قميصه، يصبون الماء فوق القميص، ويدلكونه بالقميص دون ايديهم، وكانت عائشة تقول: لو استقبلت من امري ما استدبرت، ما غسله إلا نساؤه.
(مرفوع) حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عَبَّادٍ، عَنْ أَبِيهِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ، تَقُولُ: لَمَّا أَرَادُوا غَسْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: وَاللَّهِ مَا نَدْرِي، أَنُجَرِّدُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ثِيَابِهِ كَمَا نُجَرِّدُ مَوْتَانَا، أَمْ نَغْسِلُهُ وَعَلَيْهِ ثِيَابُهُ؟ فَلَمَّا اخْتَلَفُوا أَلْقَى اللَّهُ عَلَيْهِمُ النَّوْمَ. حتَّى مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا وَذَقْنُهُ فِي صَدْرِهِ، ثُمَّ كَلَّمَهُمْ مُكَلِّمٌ مِنْ نَاحِيَةِ الْبَيْتِ، لَا يَدْرُونَ مَنْ هُوَ: أَنِ اغْسِلُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ ثِيَابُهُ، فَقَامُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَغَسَلُوهُ وَعَلَيْهِ قَمِيصُهُ، يَصُبُّونَ الْمَاءَ فَوْقَ الْقَمِيصِ، وَيُدَلِّكُونَهُ بِالْقَمِيصِ دُونَ أَيْدِيهِمْ، وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ: لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ، مَا غَسَلَهُ إِلَّا نِسَاؤُهُ.
عباد بن عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دینے کا ارادہ کیا تو کہنے لگے: قسم اللہ کی! ہمیں نہیں معلوم کہ ہم جس طرح اپنے مردوں کے کپڑے اتارتے ہیں آپ کے بھی اتار دیں، یا اسے آپ کے بدن پر رہنے دیں اور اوپر سے غسل دے دیں، تو جب لوگوں میں اختلاف ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر نیند طاری کر دی یہاں تک کہ ان میں سے کوئی آدمی ایسا نہیں تھا جس کی ٹھڈی اس کے سینہ سے نہ لگ گئی ہو، اس وقت گھر کے ایک گوشے سے کسی آواز دینے والے کی آواز آئی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اپنے پہنے ہوئے کپڑوں ہی میں غسل دو، آواز دینے والا کون تھا کوئی بھی نہ جان سکا، (یہ سن کر) لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اٹھ کر آئے اور آپ کو کرتے کے اوپر سے غسل دیا لوگ قمیص کے اوپر سے پانی ڈالتے تھے اور قمیص سمیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک ملتے تھے نہ کہ اپنے ہاتھوں سے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں: اگر مجھے پہلے یاد آ جاتا جو بعد میں یاد آیا، تو آپ کی بیویاں ہی آپ کو غسل دیتیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/الجنائز 9 (1464)، (تحفة الأشراف: 16180)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/267) (حسن)» ‏‏‏‏

Narrated Aishah, Ummul Muminin: By Allah, we did not know whether we should take off the clothes of the Messenger of Allah ﷺ as we took off the clothes of our dead, or wash him while his clothes were on him. When they (the people) differed among themselves, Allah cast slumber over them until every one of them had put his chin on his chest. Then a speaker spoke from a side of the house, and they did not know who he was: Wash the Prophet ﷺ while his clothes are on him. So they stood round the Prophet ﷺ and washed him while he had his shirt on him. They poured water on his shirt, and rubbed him with his shirt and not with their hands. Aishah used to say: If I had known beforehand about my affair what I found out later, none would have washed him except his wives.
USC-MSA web (English) Reference: Book 20 , Number 3135


قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (5948)
أخرجه ابن ماجه (1464 وسنده حسن)

   سنن أبي داود3141عائشة بنت عبد اللهلما أرادوا غسل النبي قالوا والله ما ندري أنجرد رسول الله من ثيابه كما نجرد موتانا أم نغسله وعليه ثيابه فلما اختلفوا ألقى الله عليهم النوم حتى ما منهم رجل إلا وذقنه في صدره ثم كلمهم مكلم من ناحية البيت لا يدرون من هو أن اغسلوا النبي وعليه ثيابه فقاموا إلى
   بلوغ المرام435عائشة بنت عبد الله لما ارادوا غسل رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قالوا: والله ما ندري نجرد رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم من ثيابه كما نجرد موتانا ام نغسله وعليه ثيابه؟

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3141 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3141  
فوائد ومسائل:

میت کو غسل دیتے ہوئے بالکل عریاںکرنا جائز نہیں بلکہ سترہ عورت (پردے والی چیزوں کو چھپانے) کا اہتمام کرنا واجب ہے۔


شوہر بیوی کو یا بیوی شوہرکو غسل دے تو جائز ہے۔
جیسے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غسل دیا تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3141   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 435  
´صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پر غنودگی کی سی کیفیت طاری ہونا`
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دینے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا اللہ کی قسم! ہمیں علم نہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے اتاریں جس طرح ہم اپنے مرنے والوں کے کپڑے اتارتے ہیں یا نہ اتاریں؟ . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 435]
لغوی تشریح:
«مَانَذرِي» ہمیں معلوم نہیں۔
«نُجَرَّدُ» تجرید سے ماخوذ ہے۔ بدن سے کپڑے اتارنا۔
مصنف رحمہ اللہ نے اس حدیث کا ابتدائی حصہ نقل کرنے پر اکتفا کیا ہے۔ مکمل حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ اسی تذبذب میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پر غنودگی کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔ اسی حالت میں انہوں نے کسی کہنے والے سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑوں سمیت غسل دو، لہٰذا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کو بغیر کپڑے اتارے غسل دیا۔ یہ صحابہ رضی اللہ عنہ کا اپنا تردد و تذبذب تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ دیگر مخلوق پر شرف و بزرگی حاصل ہے، اس لیے آپ کے کپڑے اتاریں یا نہ اتاریں، ورنہ اس حدیث میں دلیل ہے کہ ان کے ہاں میت کے کپڑے اتار کر غسل دینا بغیر کسی شک و ریب کے مشروع تھا، البتہ قابل ستر اعضاء کی پردہ پوشی واجب ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 435   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.