(مرفوع) حدثنا هناد بن السري، عن عبدة، وابي معاوية، المعني عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الميت ليعذب ببكاء اهله عليه، فذكر ذلك لعائشة، فقالت: وهل تعني ابن عمر؟ إنما مر النبي صلى الله عليه وسلم على قبر، فقال: إن صاحب هذا ليعذب، واهله يبكون عليه". ثم قرات: ولا تزر وازرة وزر اخرى سورة الانعام آية 164. قال عن ابي معاوية: على قبر يهودي. (مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ عَبْدَةَ، وأبي معاوية، المعني عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ، فَقَالَتْ: وَهِلَ تَعْنِي ابْنَ عُمَرَ؟ إِنَّمَا مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرٍ، فَقَالَ: إِنَّ صَاحِبَ هَذَا لَيُعَذَّبُ، وَأَهْلُهُ يَبْكُونَ عَلَيْهِ". ثُمَّ قَرَأَتْ: وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى سورة الأنعام آية 164. قَالَ عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ: عَلَى قَبْرِ يَهُودِيٍّ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میت کو اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب دیا جاتا ہے“۱؎، ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اس بات کا ذکر ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا گیا تو انہوں نے کہا: ان سے یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھول ہوئی ہے، سچ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قبر کے پاس سے گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس قبر والے کو تو عذاب ہو رہا ہے اور اس کے گھر والے ہیں کہ اس پر رو رہے ہیں“، پھر ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے آیت «ولا تزر وازرة وزر أخرى»”کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا“(سورۃ الإسراء: ۱۵) پڑھی۔ ابومعاویہ کی روایت میں «على قبر» کے بجائے «على قبر يهودي» ہے، یعنی ایک یہودی کے قبر کے پاس سے گزر ہوا۔
وضاحت: ۱؎: «إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ» میت کو اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب دیا جاتا ہے، حالاں کہ رونا یا نوحہ کرنا بذات خود میت کا عمل نہیں ہے، پھر غیر کے عمل پر اسے عذاب دیا جانا باعث تعجب ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے «ولا تزر وازرة وزر أخرى»”کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا“ اس سلسلہ میں علماء کا کہنا ہے کہ مرنے والے کو اگر یہ معلوم ہے کہ میرے مرنے کے بعد میرے گھر والے مجھ پر نوحہ کریں گے اور اس نے قدرت رکھنے کے باوجود قبل از موت اس سے منع نہیں کیا تو نہ روکنا اس کے لئے باعث سزا ہو گا، اور اس کے گھر والے اگر آہ و بکا کئے بغیر آنسو بہا رہے ہیں تو یہ جائز ہے جیسا کہ ابراہیم اور ام کلثوم کے انتقال پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، پوچھے جانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو رحمت ہے اللہ نے جس کے دل میں چاہا رکھا۔
Narrated Ibn Umar: The Messenger of Allah ﷺ as saying: The dead is punished because of his family's weeping for him. When this was mentioned to Aishah, she said: Ibn Umar forgot and made a mistake. The Prophet ﷺ passed by grave and he said: The man in the grave is being punished while his family is weeping for him. She then recited: "No bearer of burdens can bear the burden of another. " The narrator Abu Muawiyyah said: (The Prophet passed) by the grave of a Jew.
USC-MSA web (English) Reference: Book 20 , Number 3123
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (3979، 3980، 3981) صحيح مسلم (932)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3129
فوائد ومسائل: مرنے والا کافر ہو یا بالفرض مسلما ن بھی ہو، مگر نوحہ کرنے کی وصیت کرگیا ہو یا اس عمل پر راضی ہوتو اہل خانہ کے نوحہ کرنے سے اسے عذاب ہوگا۔ اس صورت میں اسےعذاب دیا جانا۔ مذکورہ آیت کے خلاف نہیں۔ البتہ اگر وہ اس عمل سے بیزار رہا ہو اور منع کرگیا ہو۔ پھر پیچھے والے یہ غیر شرعی کام کریں۔ تو وہ اس سے بری ہوگا۔ لہذا مومنوں کو چاہیے کہ اپنے وارثوں کو نوحہ یا بین کرنے سے سختی کے ساتھ منع کرتے رہا کریں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس حدیث کواس آیت کے خلاف سمجھا۔ اس لئے اس کی مذکورہ تاویل کی جب کہ واقعہ یہ ہے کہ مذکورہ مفہوم کے مطابق اس حدیث اور آیت میں کوئی تخالف نہیں ہے۔ اس لئے یہ حدیث بھی اس طرح صحیح ہے۔ جس طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے بیا ن کیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3129