(مرفوع) حدثنا محمد بن احمد القرشي، حدثنا عبد الله بن الزبير، حدثنا فرج بن سعيد، حدثني عمي ثابت بن سعيد، عن ابيه، عن جده ابيض بن حمال انه سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن حمى الاراك؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا حمى في الاراك، فقال: اراكة في حظاري، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لا حمى في الاراك"، قال: فرج يعني بحظاري الارض التي فيها الزرع المحاط عليها. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، حَدَّثَنَا فَرَجُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنِي عَمِّي ثَابِتُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَبْيَضَ بْنِ حَمَّالٍ أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حِمَى الأَرَاكِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا حِمَى فِي الْأَرَاكِ، فَقَالَ: أَرَاكَةٌ فِي حِظَارِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا حِمَى فِي الأَرَاكِ"، قَالَ: فَرَجٌ يَعْنِي بِحِظَارِي الأَرْضَ الَّتِي فِيهَا الزَّرْعُ الْمُحَاطُ عَلَيْهَا.
ابیض بن حمال ماربی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیلو کی ایک چراگاہ مانگی ۱؎ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پیلو میں روک نہیں ہے“، انہوں نے کہا: پیلو میرے باڑھ اور احاطے کے اندر ہیں، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پیلو میں روک نہیں ہے“(اس لیے کہ اس کی حاجت سبھی آدمیوں کو ہے)۔ فرج کہتے ہیں: «حظاری» سے ایسی سر زمین مراد ہے جس میں کھیتی ہوتی ہو اور وہ گھری ہوئی ہو۔
وضاحت: ۱؎: یعنی ایک احاطہ جس میں دوسرے لوگ آ کر نہ درخت کاٹیں نہ اس میں اپنے جانور چرائیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3)، وقد أخرجہ: دی/ البیوع 66 (2650) (حسن لغیرہ) (ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود 8؍ 390)»
Narrated Abyad ibn Hammal: He asked the Messenger of Allah ﷺ for giving him some land which had arak trees growing in it. The Messenger of Allah ﷺ said: There is no (permission for) protecting a land which has arak trees growing in it. He said: These arak trees are within the boundaries of my field. The Prophet ﷺ said: There is no (permission for) protecting a land which has arak trees growing in it. The narrator Faraj said: By the phrase 'within the boundaries of my field' he meant the land which had crop growing in it and was surrounded on four sides.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3060
قال الشيخ الألباني: حسن لغيره
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن ماجه (2475) ثابت و أبوه مستوران لم يوثقھما غير ابن حبان انوار الصحيفه، صفحه نمبر 112
وردت الملح في الجاهلية وهو بأرض ليس بها ماء ومن ورده أخذه وهو مثل الماء العد فاستقال رسول الله أبيض بن حمال في قطيعته في الملح فقال قد أقلتك منه على أن تجعله مني صدقة فقال رسول الله هو منك صدقة وهو مثل الماء العد من ورده أخذه
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3066
فوائد ومسائل: ایسی زمینیں جو پہلے بے آباد ہوں اور حکومت اسلامیہ نے کسی کو دے دی ہوں۔ یا بے آباد زمین کو کسی نے از خود آباد کیا ہو اور اس کا مالک بن گیا ہو۔ تو پہلے سے موجود درختوں سے عام لوگوں کو روکنا جائز نہیں اور ایسے ہی جو خودرو ہوں جیسے کہ جھاڑیاں وغیرہ ہوتی ہیں۔ یا خورد ہوں جیسے کہ جھاڑیاں وغیرہ ہوتی ہیں یا خورد گھاس اس سے ضرورت مندوں کو روکنا اخلاقا بھی درست نہیں۔ لیکن جسے مالک نے خود کاشت کیا ہو۔ اس سے روکنے کا اسے حق ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3066
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3064
´زمین جاگیر میں دینے کا بیان۔` ابیض بن حمال ماربی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے نمک کی کان کی جاگیر مانگی (ابن متوکل کی روایت میں ہے: جو مآرب ۱؎ میں تھی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دے دی، لیکن جب وہ واپس مڑے تو مجلس میں موجود ایک شخص نے عرض کیا: جانتے ہیں کہ آپ نے ان کو کیا دے دیا ہے؟ آپ نے ان کو ایسا پانی دے دیا ہے جو ختم نہیں ہوتا، بلا محنت و مشقت کے حاصل ہوتا ہے ۲؎ وہ کہتے ہیں: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس لے لیا، تب انہوں نے آپ سے پوچھا: پیلو کے درختوں کی کون سی جگہ گھیری جائے؟ ۳؎، آپ نے فرمایا: ”جہاں جانورو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3064]
فوائد ومسائل: اس حدیث سے یہ استدلال کیا گیا ہے۔ کہ ایسی کانیں جن کے منافع ظاہر ہوں اورعام لوگوں سے متعلق ہوں وہ کسی کی خاص ملکیت میں نہیں دینی چاہیے۔ بخلاف ان کے جنھیں محنت اور مشقت سے نکالا جاتا ہے۔
2۔ امام کو حق ہے کہ عطیہ دے کر واپس لے لے۔
3۔ قاضی کا اپنے فیصلے سے رجوع کر لینا کوئی معیوب نہیں۔
4۔ امام اور قاضی کے مصاحبین کو چاہیے کہ جو امور ونکات ان کے سامنے واضح نہ ہوں۔ ان سے انہیں مطلع کردیا کریں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3064
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2475
´نہروں اور چشموں کو جاگیر میں دینے کا بیان۔` ابیض بن حمال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اس نمک کو جو ”نمک سدمآرب“ کے نام سے جانا جاتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بطور جاگیر طلب کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے انہیں جاگیر میں دے دیا، پھر اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور عرض کیا: میں زمانہ جاہلیت میں اس نمک کی کان پر سے گزر چکا ہوں، وہ ایسی زمین میں ہے جہاں پانی نہیں ہے، جو وہاں جاتا ہے، وہاں سے نمک لے جاتا ہے، وہ بہتے پانی کی طرح ہے، جس کا سلسلہ کبھی بند نہیں ہوتا، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابیض بن حم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2475]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اسلامی حکومت کا سربراہ کسی مسلمان کو اس کے کسی خاص کارنامے پرانعام کےطور پرزمین کا ٹکڑا دے سکتا ہے اسے جاگیر کہتےہیں۔
(2) جاگیر میں ایسی چیز نہیں دینی چاہیے جس کی عام لوگوں کو ضرورت ہو۔
(3) سد مارب کےمقام پرسمندری نمک حاصل ہوتا تھا جیسے کوئی بھی شخص لے کر اپنی ضروروت پوری کرسکتا تھا اوردوسرے مقام پرلے جا کر فروخت کرسکتا تھا۔ حضرت ابیض رضی اللہ عنہ نےچاہا کہ انھیں اس کے ملکیتی حقوق دے دیے جائیں رسول اللہ ﷺ نےان کی یہ درخواست قبول فرمائی۔
(4) رعیت کا کوئی شخص اگر ایک مفید تجویز پیش کرے تواسے قبول کرلینا چاہیے خواہ اس کے لیے حکمران کو سابقہ فیصلہ تبدیل کرنا پڑے۔
(5) حضرت ابیض رضی اللہ عنہ نے واپس کرنے کی بجائے صدقہ کر دیا اس طرح واپسی سےمسلمانوں کا جو فائدہ مطلوب تھا وہ بھی حاصل ہوگیا اورصدقے کا ثواب بھی مل گیا۔
(6) وقت کسی کی ملکیت نہیں ہوتا اس سے ہر شخص کو فائدے اٹھانے کا حق حاصل ہوتا ہے۔
(7) حضر ت فرخ بن سعید رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابیض رضی اللہ عنہ کے پوتے کے پوتے تھے جوامام مالک کےہم عصر تھے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2475
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1380
´جاگیر دینے کا بیان۔` ابیض بن حمال رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے جاگیر میں نمک کی کان مانگی تو آپ نے انہیں دے دی، لیکن جب وہ پیٹھ پھیر کر واپس جانے لگے تو مجلس میں موجود ایک آدمی نے عرض کیا: جانتے ہیں کہ آپ نے جاگیر میں اسے کیا دیا ہے؟ آپ نے اسے جاگیر میں ایسا پانی دیا ہے جو کبھی بند نہیں ہوتا ہے۔ (اس سے برابر نمک نکلتا رہے گا) تو آپ نے اس سے اسے واپس لے لیا، اس نے آپ سے پوچھا: پیلو کے درختوں کی کون سی جگہ (بطور رمنہ) گھیری جائے؟ آپ نے فرمایا: ”جس زمین تک اونٹوں کے پاؤں نہ پہنچے“(جو آبادی اور چراگاہ سے کافی دور ہوں)۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1380]
اردو حاشہ: نوٹ: (یہ سند مسلسل بالضعفاء ہے: ”ثمامہ“ لین الحدیث، اور ”سمیر“ مجہول ہیں، لیکن ابوداؤد کی دوسری روایت (رقم 3065) سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، اس کی تصحیح ابن حبان اورتحسین البانی نے کی ہے (مالم تنله خفاف کے استثناء کے ساتھ) دیکھئے: صحیح ابی داؤد رقم 2694) اور (شاہد کی بناپر حسن لغیرہ ہے کما تقدم)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1380