4028. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: بنو نضیر اور بنو قریظہ نے (رسول اللہ ﷺ کے خلاف) لڑائی کی تو آپ نے بنو نضیر کو جلا وطن کر دیا اور بنو قریظہ پر احسان کرتے ہوئے انہیں برقرار رکھا حتی کہ انہوں نے دوبارہ آپ سے لڑائی کی تو آپ نے ان کے مردوں کو قتل کیا اور ان کی عورتوں، بچوں اور دیگر مال و اسباب کو مسلمانوں میں تقسیم کر دیا، البتہ ان میں سے کچھ لوگوں نے نبی ﷺ کے پاس آ کر پناہ لی تو آپ نے انہیں امن دے دیا اور وہ مسلمان ہو گئے۔ پھر آپ نے مدینہ طیبہ کے تمام یہود، یعنی بنو قینقاع جو حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کی قوم سے تھے اور یہود بنو حارثہ کو وہاں سے نکال دیا۔ الغرض آپ نے مدینہ طیبہ کے تمام یہودیوں کو مدینہ طیبہ سے جلا وطن کر دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4028]
حدیث حاشیہ: 1۔
مدینہ طیبہ سے یہود بنونضیر کو جلا وطن کرنے کے عام طور پر دو سبب بیان کیے جاتے ہیں:
۔
بئر معونہ کے واقعہ کے بعد عمرو بن امیہ ضمری نے دوآدمیوں کو قتل کردیا، حالانکہ ان کے قبیلے سے رسول اللہ ﷺ کا عہد وپیمان تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کی دیت ادا کرنے کا پروگرام بنایا۔
اس سلسلے میں آپ بنونضیر کے پاس گئے تو انھوں نے بظاہر آمادگی کا اظہار کیا لیکن درپردہ آپ کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کی سازش کی، تاہم اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل ؑ کے ذریعے سے آپ کو مطلع کردیا تو آپ وہاں سے مدینہ طیبہ واپس آگئے، پھر ان پر چڑھائی کی اور جلاوطن کیا۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ
(آیت: 11) میں اس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
۔
بنونضیر نے رسول اللہ ﷺ کو پیغام بھیجا کہ آپ کے تین علماء ہمارے تین علماء سے مناظرہ کریں۔
اگردوران مناظرہ ہمارے علماء کو آپ کے علماء نے قائل کرلیا تو ہم مسلمان ہوجائیں گے لیکن اندرون خانہ یہ سازش تھی کہ ہمارے تین آدمی خنجر چھا کرلے جائیں گے اور مسلمانوں کے تینوں علماء کو قتل کردیں گے۔
اس سازش کی اطلاع ایک عورت نے دی تورسول اللہ ﷺ نے بنو نضیر سے فرمایا کہ تمہاری سازش بے نقاب ہوچکی ہے۔
اب تمھیں صرف دس دن کی مہلت ہے۔
چنانچہ انھیں جلاوطن کردیا گیا۔
حافظ ابن حجر ؒنے اسےقوی قراردیا ہے۔
(فتح الباري: 414/7) بہرحال تمام اہل مغازی اس بات پر متفق ہیں کہ بنونضیر کی جلاوطنی غزوہ اُحد کے بعد عمل میں آئی جبکہ امام بخاری ؒ کہتے ہیں کہ یہ واقعہ غزوہ اُحد سے پہلے کا ہے۔
واللہ اعلم۔