سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
Tribute, Spoils, and Rulership (Kitab Al-Kharaj, Wal-Fai Wal-Imarah)
5. باب فِي الْعِرَافَةِ
5. باب: عرافت کا بیان۔
Chapter: Regarding Al-’Arafah.
حدیث نمبر: 2934
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا غالب القطان، عن رجل، عن ابيه، عن جده، انهم كانوا على منهل من المناهل، فلما بلغهم الإسلام جعل صاحب الماء لقومه مائة من الإبل على ان يسلموا، فاسلموا وقسم الإبل بينهم، وبدا له ان يرتجعها منهم، فارسل ابنه إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال له: ائت النبي صلى الله عليه وسلم فقل له: إن ابي يقرئك السلام، وإنه جعل لقومه مائة من الإبل على ان يسلموا، فاسلموا وقسم الإبل بينهم وبدا له ان يرتجعها منهم، افهو احق بها ام هم؟ فإن قال لك: نعم او لا، فقل له: إن ابي شيخ كبير وهو عريف الماء وإنه يسالك ان تجعل لي العرافة بعده، فاتاه فقال: إن ابي يقرئك السلام، فقال:" وعليك وعلى ابيك السلام، فقال: إن ابي جعل لقومه مائة من الإبل على ان يسلموا فاسلموا وحسن إسلامهم، ثم بدا له ان يرتجعها منهم افهو احق بها ام هم؟ فقال: إن بدا له ان يسلمها لهم فليسلمها، وإن بدا له ان يرتجعها فهو احق بها منهم، فإن هم اسلموا فلهم إسلامهم وإن لم يسلموا قوتلوا على الإسلام، فقال: إن ابي شيخ كبير وهو عريف الماء وإنه يسالك ان تجعل لي العرافة بعده، فقال: إن العرافة حق ولا بد للناس من العرفاء، ولكن العرفاء في النار".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا غَالِبٌ الْقَطَّانُ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُمْ كَانُوا عَلَى مَنْهَلٍ مِنَ الْمَنَاهِلِ، فَلَمَّا بَلَغَهُمُ الإِسْلَامُ جَعَلَ صَاحِبُ الْمَاءِ لِقَوْمِهِ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ عَلَى أَنْ يُسْلِمُوا، فَأَسْلَمُوا وَقَسَمَ الإِبِلَ بَيْنَهُمْ، وَبَدَا لَهُ أَنْ يَرْتَجِعَهَا مِنْهُمْ، فَأَرْسَلَ ابْنَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ: ائْتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْ لَهُ: إِنَّ أَبِي يُقْرِئُكَ السَّلَامَ، وَإِنَّهُ جَعَلَ لِقَوْمِهِ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ عَلَى أَنْ يُسْلِمُوا، فَأَسْلَمُوا وَقَسَمَ الإِبِلَ بَيْنَهُمْ وَبَدَا لَهُ أَنْ يَرْتَجِعَهَا مِنْهُمْ، أَفَهُوَ أَحَقُّ بِهَا أَمْ هُمْ؟ فَإِنْ قَالَ لَكَ: نَعَمْ أَوْ لَا، فَقُلْ لَهُ: إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ وَهُوَ عَرِيفُ الْمَاءِ وَإِنَّهُ يَسْأَلُكَ أَنْ تَجْعَلَ لِي الْعِرَافَةَ بَعْدَهُ، فَأَتَاهُ فَقَالَ: إِنَّ أَبِي يُقْرِئُكَ السَّلَامَ، فَقَالَ:" وَعَلَيْكَ وَعَلَى أَبِيكَ السَّلَامُ، فَقَالَ: إِنَّ أَبِي جَعَلَ لِقَوْمِهِ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ عَلَى أَنْ يُسْلِمُوا فَأَسْلَمُوا وَحَسُنَ إِسْلَامُهُمْ، ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يَرْتَجِعَهَا مِنْهُمْ أَفَهُوَ أَحَقُّ بِهَا أَمْ هُمْ؟ فَقَالَ: إِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يُسْلِمَهَا لَهُمْ فَلْيُسْلِمْهَا، وَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يَرْتَجِعَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا مِنْهُمْ، فَإِنْ هُمْ أَسْلَمُوا فَلَهُمْ إِسْلَامُهُمْ وَإِنْ لَمْ يُسْلِمُوا قُوتِلُوا عَلَى الْإِسْلَامِ، فَقَالَ: إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ وَهُوَ عَرِيفُ الْمَاءِ وَإِنَّهُ يَسْأَلُكَ أَنْ تَجْعَلَ لِي الْعِرَافَةَ بَعْدَهُ، فَقَالَ: إِنَّ الْعِرَافَةَ حَقٌّ وَلَا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنَ الْعُرَفَاءِ، وَلَكِنَّ الْعُرَفَاءَ فِي النَّارِ".
غالب قطان ایک شخص سے روایت کرتے ہیں وہ اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ کچھ لوگ عرب کے ایک چشمے پر رہتے تھے جب ان کے پاس اسلام پہنچا تو چشمے والے نے اپنی قوم سے کہا کہ اگر وہ اسلام لے آئیں تو وہ انہیں سو اونٹ دے گا، چنانچہ وہ سب مسلمان ہو گئے تو اس نے اونٹوں کو ان میں تقسیم کر دیا، اس کے بعد اس نے اپنے اونٹوں کو ان سے واپس لے لینا چاہا تو اپنے بیٹے کو بلا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور اس سے کہا: تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو کہ میرے والد نے آپ کو سلام پیش کیا ہے، اور میرے والد نے اپنی قوم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ اسلام لے آئیں تو وہ انہیں سو اونٹ دے گا چنانچہ وہ اسلام لے آئے اور والد نے ان میں اونٹ تقسیم بھی کر دیئے، اب وہ چاہتے ہیں کہ ان سے اپنے اونٹ واپس لے لیں تو کیا وہ واپس لے سکتے ہیں یا نہیں؟ اب اگر آپ ہاں فرمائیں یا نہیں فرمائیں تو فرما دیجئیے میرے والد بہت بوڑھے ہیں، اس چشمے کے وہ عریف ہیں، اور چاہتے ہیں کہ اس کے بعد آپ مجھے وہاں کا عریف بنا دیں، چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آ کر عرض کیا کہ میرے والد آپ کو سلام کہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پر اور تمہارے والد پر سلام ہو۔ پھر انہوں نے کہا: میرے والد نے اپنی قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسلام لے آئیں، تو وہ انہیں سو اونٹ دیں گے چنانچہ وہ سب اسلام لے آئے اور اچھے مسلمان ہو گئے، اب میرے والد چاہتے ہیں کہ ان اونٹوں کو ان سے واپس لے لیں تو کیا میرے والد ان اونٹوں کا حق رکھتے ہیں یا وہی لوگ حقدار ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہارے والد چاہیں کہ ان اونٹوں کو ان لوگوں کو دے دیں تو دے دیں اور اگر چاہیں کہ واپس لے لیں تو وہ ان کے ان سے زیادہ حقدار ہیں اور جو مسلمان ہوئے تو اپنے اسلام کا فائدہ آپ اٹھائیں گے اور اگر مسلمان نہ ہوں گے تو مسلمان نہ ہونے کے سبب قتل کئے جائیں گے (یعنی اسلام سے پھر جانے کے باعث)۔ پھر انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، اور اس چشمے کے عریف ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے بعد عرافت کا عہدہ مجھے دے دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عرافت تو ضروری (حق) ہے، اور لوگوں کو عرفاء کے بغیر چارہ نہیں لیکن (یہ جان لو) کہ عرفاء جہنم میں جائیں گے (کیونکہ ڈر ہے کہ اسے انصاف سے انجام نہیں دیں گے اور لوگوں کی حق تلفی کریں گے)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 15712)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/316) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں کئی مجہول ومبہم راوی ہیں)

Narrated Ghalib al-Qattan: Ghalib quoted a man who stated on the authority of his father that his grandfather reported: They lived at one of the springs. When Islam reached them, the master of the spring offered his people one hundred camels if they embraced Islam. So they embraced Islam, and he distributed the camels among them. But it occurred to him that he should take the camels back from them. He sent his son to the Prophet ﷺ and said to him: Go to the Prophet ﷺ and tell him: My father extends his greetings to you. He asked his people to give them one hundred camels if they embraced Islam, and they embraced Islam. He divided the camels among them. But it occurred to him then that he should withdraw his camels from them. Is he more entitled to them or we? If he says: Yes or no, then tell him: My father is an old man, and he is the chief of the people living at the water. He has requested you to make me chief after him. He came to him and said: My father has extended his greetings to you. He replied: On you and you father be peace. He said: My father asked his people to give them one hundred camels if they embraced Islam. So they embraced Islam, and their belief in Islam is good. Then it occurred to him that he should take his camels back from them. Is he more entitled to them or are they? He said: If he likes to give them the camels, he may give them; and if he likes to take them back, he is more entitled to them than his people. If they embraced Islam, then for them is their Islam. If they do not embrace Islam, they will be fought against in the cause of Islam. He said: My father is an old man; he is the chief of the people living at the spring. He has asked you to appoint me chief after him. He replied: The office of a chief is necessary, for people must have chiefs, but the chiefs will go to Hell.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2928


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
فيه غير واحد من المجهولين
انظر عون المعبود(93/3)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 106

   سنن أبي داود2934موضع إرسالجعل لقومه مائة من الإبل على أن يسلموا فأسلموا وقسم الإبل بينهم العرافة حق ولا بد للناس من العرفاء ولكن العرفاء في النار

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2934 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2934  
فوائد ومسائل:
یہ روایت سندا ً ضعیف ہے۔
تاہم دیگر صحیح احادیث کی رو سے ثابت ہے۔
کہ ہدیہ یا عطیہ دے کر واپس لینا جائز نہیں ہے۔
البتہ باپ کواپنی اولاد سے عطیہ واپس لے لینے کا حق حاصل ہے۔
لیکن اولاد کو اپنے والدین سے واپس لے لینے کا حق حاصل نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2934   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.