علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سن کر یاد رکھی ہے کہ احتلام کے بعد یتیمی نہیں (یعنی جب جوان ہو گیا تو یتیم نہیں رہا) اور نہ دن بھر رات کے آنے تک خاموشی ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: زمانہ جاہلیت کے لوگوں کی عبادت کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ خاموشی کا روزہ رکھتے اور دوران خاموشی کسی سے بات نہیں کرتے تھے، اسلام نے اس طریقہ عبادت سے منع کر دیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:10160) (صحیح)»
Narrated Ali ibn Abu Talib: I memorised (a tradition) from the Messenger of Allah ﷺ: There is no orphanhood after puberty, and there is no silence for the whole day till the night.
USC-MSA web (English) Reference: Book 17 , Number 2867
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف خالد بن سعيد لم يوثقه غير ابن حبان وباقي السند حسن وللحديث شواھد ضعيفة وروي الطبراني في الكبير (3502) عن حنظلة بن حذيم قال قال رسول اللّٰه ﷺ: ((لا يتم بعد احتلام ولا يتم علي جارية إذا ھي حاضت)) وسنده حسن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 103
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2873
فوائد ومسائل: یتیم بچہ بالغ ہونے کے بعد اپنے امور کا خود ذمہ داار ہوجاتاہے۔ اور اس سے یتیمی کے احکام اٹھ جاتے ہیں۔ اگر وہ فی الواقع دانا اور سمجھ دار ہو تو خریدوفروخت اور نکاح وغیرہ کے معاملات میں اس کا اپنا فیصلہ راحج ہوگا۔ لیکن اگر ثابت نہ ہو کہ ان معاملات میں وہ دانا نہیں ہے تو ولی ہی اس کا نگران رہے گا۔ جیسے کہ سورۃ النساء میں ہے۔ (وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ)(النساء۔ 6/4) اور یتیموں کو آذماتے رہو۔ پھر تم اگر ان میں ہوشیاری اور حسن تدبیر پائو تو ان کے مال ان کے حوالے کردو اور دوسرا مسئلہ چپ کا روزہ قبل ازاسلام لوگوں کامعمول تھا۔ اسلام میں اس س منع کردیا گیا ہے۔ اور اللہ کا ذکر کرنے اور خیر کے ساتھ بولنے کا حکم دیاگیاہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2873