(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، اخبرنا ثابت البناني، عن انس بن مالك، ان فتى من اسلم، قال: يا رسول الله إني اريد الجهاد وليس لي مال اتجهز به قال: اذهب إلى فلان الانصاري فإنه كان قد تجهز فمرض، فقل له: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرئك السلام، وقل له: ادفع إلي ما تجهزت به فاتاه، فقال له: ذلك فقال: لامراته يا فلانة ادفعي له ما جهزتني به، ولا تحبسي منه شيئا، فوالله لا تحبسين منه شيئا فيبارك الله فيه. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ فَتًى مِنْ أَسْلَمَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُرِيدُ الْجِهَادَ وَلَيْسَ لِي مَالٌ أَتَجَهَّزُ بِهِ قَالَ: اذْهَبْ إِلَى فُلَانٍ الْأَنْصَارِيِّ فَإِنَّهُ كَانَ قَدْ تَجَهَّزَ فَمَرِضَ، فَقُلْ لَهُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقْرِئُكَ السَّلَامَ، وَقُلْ لَهُ: ادْفَعْ إِلَيَّ مَا تَجَهَّزْتَ بِهِ فَأَتَاهُ، فَقَالَ لَهُ: ذَلِكَ فَقَالَ: لِامْرَأَتِهِ يَا فُلَانَةُ ادْفَعِي لَهُ مَا جَهَّزْتِنِي بِهِ، وَلَا تَحْبِسِي مِنْهُ شَيْئًا، فَوَاللَّهِ لَا تَحْبِسِينَ مِنْهُ شَيْئًا فَيُبَارِكَ اللَّهُ فِيهِ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ اسلم کا ایک جوان نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں جہاد کا ارادہ رکھتا ہوں لیکن میرے پاس مال نہیں ہے جس سے میں اس کی تیاری کر سکوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فلاں انصاری کے پاس جاؤ اس نے جہاد کا سامان تیار کیا تھا لیکن بیمار ہو گیا، اس سے جا کر کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں سلام کہا ہے، اور یہ کہو کہ جو اسباب تم نے جہاد کے لیے تیار کیا تھا وہ مجھے دے دو“، وہ شخص اس انصاری کے پاس آیا اور آ کر اس نے یہی بات کہی، انصاری نے اپنی بیوی سے کہا: جتنا سامان تو نے میرے لیے جمع کیا تھا وہ سب اسے دیدے، اس میں سے کچھ مت رکھنا، اللہ کی قسم اس میں سے کچھ نہیں رکھے گی تو اللہ اس میں برکت دے گا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: مذکورہ حدیث سے باب پر استدلال اس طرح ہے کہ جب ابتداء میں سامان جہاد مانگنا جائز ہے تو واپسی میں بدرجہ اولیٰ جائز ہونا چاہئے کہ ضرورت اس وقت سخت ہوتی ہے، ابتداء تو اگر آدمی کے پاس زادراہ نہیں ہے تو جہاد واجب کہاں؟۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 38 (1894)، (تحفة الأشراف: 324)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/207) (صحیح)»
Anas bin Malik said “A youth of Aslam said “Messenger of Allah ﷺ, I wish to go on an expedition, but I have no property to make myself equipped. He said “go to so and so Ansari who prepared equipment (for the battle), but he fell ill and tell him that the Messenger of Allah ﷺ has conveyed his regards to you, and then tell him “Give him all the equipment you have made. He came to him and told him that. He said to his wife “O so and so, give him all the equipment I have made and do not detain anything from him. I swear by Allaah, if you detain anything from him, Allaah will not bless it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2774
ائت فلانا فإنه قد كان تجهز فمرض فأتاه فقال إن رسول الله يقرئك السلام ويقول أعطني الذي تجهزت به قال يا فلانة أعطيه الذي تجهزت به ولا تحبسي عنه شيئا فوالله لا تحبسي منه شيئا فيبارك لك فيه
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2780
فوائد ومسائل: 1۔ چاہیے کہ جو چیز سامان یا مال اللہ کےلئے خاص کر دیا گیا ہو۔ اور انسان اسے اگر خود خرچ نہ کرسکے۔ تو کسی اور کے حوالے کردے۔ بالخصوص جہاد کا سامان اس کے خرچ کردینے میں برکت اور روک لینے میں بے برکتی ہے۔ ایسے مال میں اگر نذر اور وقف کی نیت کی گئی ہوتو خود خرچ کرنا یا کسی کو دے دینا واجب ہے۔ ورنہ مستحب۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2780