(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، عن الليث، عن ابن شهاب، عن عطاء بن يزيد الليثي، عن عبيد الله بن عدي بن الخيار، عن المقداد بن الاسود، انه اخبره انه قال: يا رسول الله ارايت إن لقيت رجلا من الكفار فقاتلني، فضرب إحدى يدي بالسيف ثم لاذ مني بشجرة، فقال: اسلمت لله افاقتله يا رسول الله بعد ان قالها؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تقتله، فقلت: يا رسول الله إنه قطع يدي، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تقتله فإن قتلته فإنه بمنزلتك قبل ان تقتله وانت بمنزلته قبل ان يقول كلمته التي قال". (مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ اللَّيْثِ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ، عَنْ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِنْ لَقِيتُ رَجُلًا مِنَ الْكُفَّارِ فَقَاتَلَنِي، فَضَرَبَ إِحْدَى يَدَيَّ بِالسَّيْفِ ثُمَّ لَاذَ مِنِّي بِشَجَرَةٍ، فَقَالَ: أَسْلَمْتُ لِلَّهِ أَفَأَقْتُلُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَعْدَ أَنْ قَالَهَا؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَقْتُلْهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ قَطَعَ يَدِي، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَقْتُلْهُ فَإِنْ قَتَلْتَهُ فَإِنَّهُ بِمَنْزِلَتِكَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَهُ وَأَنْتَ بِمَنْزِلَتِهِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ كَلِمَتَهُ الَّتِي قَالَ".
مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے بتائیے اگر کافروں میں کسی شخص سے میری مڈبھیڑ ہو جائے اور وہ مجھ سے قتال کرے اور میرا ایک ہاتھ تلوار سے کاٹ دے اس کے بعد درخت کی آڑ میں چھپ جائے اور کہے: میں نے اللہ کے لیے اسلام قبول کر لیا، تو کیا میں اسے اس کلمہ کے کہنے کے بعد قتل کروں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں تم اسے قتل نہ کرو“، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس نے میرا ہاتھ کاٹ دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے قتل نہ کرو، کیونکہ اگر تم نے اسے قتل کر دیا تو قتل کرنے سے پہلے تمہارا جو مقام تھا وہ اس مقام میں آ جائے گا اور تم اس مقام میں پہنچ جاؤ گے جو اس کلمہ کے کہنے سے پہلے اس کا تھا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی وہ معصوم الدم قرار پائے گا اور تمہیں بطور قصاص قتل کیا جائے گا۔
Al Miqdad bin Al Aswad reported that he said “Messenger of Allah ﷺ tell me if I meet a man who is a disbeliever and he fights with me and cuts off one hand of mine with the sword and then takes refuge by a tree and says “I embraced Islam for Allah’s sake. Should I kill him, Messenger of Allah ﷺ after he uttered it (the credo of Islam)? The Messenger of Allah ﷺ said “Do not kill him”. I said “Messenger of Allah ﷺ, he cut off my hand. The Messenger of Allah ﷺ said, Do not kill him. I f you kill him, he will become like you before you kill him and you will become like him before he uttered his credo which he has uttered now.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2638
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (6869) صحيح مسلم (95)
أرأيت إن لقيت رجلا من الكفار فاقتتلنا فضرب إحدى يدي بالسيف فقطعها ثم لاذ مني بشجرة فقال أسلمت لله أأقتله يا رسول الله بعد أن قالها فقال رسول الله لا تقتله فقال يا رسول الله إنه قطع إحدى يدي ثم قال ذلك بعد ما قطعها فقال رسول الله لا تقتله فإن قتلته فإنه بم
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2644
فوائد ومسائل: 1۔ کوئی بھی ذمہ داری لینے سے پہلے اس کے فرائض واجبات اور حقوق و آداب کا علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ جیسے کہ حضرت مقدار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تفصیلات حاصل کیں۔
2۔ ہرمجاہد اسلام اورہر داعی کو اپنے میدان عمل میں انتہائی دانشمندی حلم و صبر اور اطاعت شریعت کا ثبوت دینا لازمی ہے۔
3۔ بلا سبب شرعی کسی مسلمان کا قتل کرنا جرم عظیم ہے۔ اور اس کی سزا جہنم ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2644
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4019
´کلمہ پڑھنے والے کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے` «. . . قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَقِيتُ رَجُلًا مِنَ الْكُفَّارِ فَاقْتَتَلْنَا , فَضَرَبَ إِحْدَى يَدَيَّ بِالسَّيْفِ فَقَطَعَهَا، ثُمَّ لَاذَ مِنِّي بِشَجَرَةٍ، فَقَالَ: أَسْلَمْتُ لِلَّهِ , أَأَقْتُلُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَعْدَ أَنْ قَالَهَا؟ . . .» ”. . . انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اگر کسی موقع پر میری کسی کافر سے ٹکر ہو جائے اور ہم دونوں ایک دوسرے کو قتل کرنے کی کوشش میں لگ جائیں اور وہ میرے ایک ہاتھ پر تلوار مار کر اسے کاٹ ڈالے، پھر وہ مجھ سے بھاگ کر ایک درخت کی پناہ لے کر کہنے لگے ”میں اللہ پر ایمان لے آیا۔“ تو کیا یا رسول اللہ! اس کے اس اقرار کے بعد پھر بھی میں اسے قتل کر دوں؟ . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي: 4019]
� لغوی توضیح: «لَاذَ» فعل ماضی کا صیغہ ہے، باب «لَاذَ يَلُوْذُ»(بروزن نصر) سے، معنی ہے پناہ پکڑنا۔
فہم الحدیث: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کلمہ پڑھنے والے کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے خواہ حالات یہ بتا رہے ہوں کہ اس نے محض اپنی جان بچانے کے لیے ہی کلمہ پڑھا ہے، دل کی تصدیق سے نہیں۔ کیونکہ حکم ظاہر پر لگایا جاتا ہے، کسی بھی بندے کو اس بات کا مکلف نہیں بنایا گیا کہ وہ پوشیدہ باتوں کی بھی معرفت حاصل کرے۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 61
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 274
حضرت مقداد بن اسود ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے پوچھا اے اللہ کے رسولؐ! مجھے بتائیے اگر کسی کافر آدمی سے میرا مقابلہ ہو جائے اور وہ مجھ سے لڑ پڑے اور میرا ایک ہاتھ تلوار کی ضرب سے کاٹ دے، پھر مجھ سے کسی درخت کی پناہ لے کر کہے: میں نے اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دیا (میں مسلمان ہو گیا)، تو اے اللہ کے رسولؐ! کیا یہ کلمہ کہنے کے بعد میں اس کو قتل کر سکتا ہوں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں! تم اسے قتل نہیں کر سکتے۔“ تو میں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:274]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : لَاذَ: پناہ پکڑنا، بچاؤ اختیار کرنا۔ فوائد ومسائل: کافر جب کلمہ اسلام زبان سے کہہ لیتا ہے تو اس کی جان کو حرمت وتحفظ حاصل ہوجاتا ہے، اور اس کو قتل کرنا جائز نہیں ہوتا، اگر کوئی مسلمان اس کو قتل کردے گا تو اس مسلمان کی جان کی حرمت اور تحفظ ختم ہوجائے گا، اور اس کو قصاص میں قتل کرناجائز ہوگا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 274
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4019
4019. حضرت مقداد بن عمرو کندی ؓ سے روایت ہے۔۔ وہ بنو زہرہ کے حلیف تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے۔۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میری کسی کافر سے ٹکر ہو جائے اور ہم دونوں ایک دوسرے کو قتل کرنے کی کوشش میں لگ جائیں اور وہ لڑائی میں میرا ایک ہاتھ اڑا دے، پھر وہ مجھ سے خوفزدہ ہو کر کسی درخت کی پناہ لے اور مجھے کہے کہ میں تو اللہ کے لیے مسلمان ہو گیا ہوں تو کیا اللہ کے رسول! میں اسے قتل کروں جبکہ وہ ایسا کہتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسے قتل نہ کرو۔“ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! (پہلے) وہ میرا ایک ہاتھ کاٹ چکا ہے اور میرا کاٹنے کے بعد اس نے یہ اقرار کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسے ہرگز قتل نہ کرو ورنہ اس کو وہ درجہ حاصل ہو گا جو تجھے اس کے قتل سے پہلے تھا اور تیرا حال وہ ہو جائے گا جو کلمہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4019]
حدیث حاشیہ: تو اس کے قتل کرنے سے پہلے تو جیسے مسلمان معصوم مرحوم تھا ایسے ہی اسلام کا کلمہ پڑھنے سے وہ مسلمان معصوم مرحوم ہو گیا۔ پہلے اس کا مار ڈالنا درست تھا ایسے ہی اب اس کے قصاص میں تیرا مار ڈالنا درست ہوجائے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4019
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4019
4019. حضرت مقداد بن عمرو کندی ؓ سے روایت ہے۔۔ وہ بنو زہرہ کے حلیف تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے۔۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میری کسی کافر سے ٹکر ہو جائے اور ہم دونوں ایک دوسرے کو قتل کرنے کی کوشش میں لگ جائیں اور وہ لڑائی میں میرا ایک ہاتھ اڑا دے، پھر وہ مجھ سے خوفزدہ ہو کر کسی درخت کی پناہ لے اور مجھے کہے کہ میں تو اللہ کے لیے مسلمان ہو گیا ہوں تو کیا اللہ کے رسول! میں اسے قتل کروں جبکہ وہ ایسا کہتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسے قتل نہ کرو۔“ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! (پہلے) وہ میرا ایک ہاتھ کاٹ چکا ہے اور میرا کاٹنے کے بعد اس نے یہ اقرار کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسے ہرگز قتل نہ کرو ورنہ اس کو وہ درجہ حاصل ہو گا جو تجھے اس کے قتل سے پہلے تھا اور تیرا حال وہ ہو جائے گا جو کلمہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4019]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو انسان کلمہ شہادت ادا کرکے مسلمان ہو جاتا ہے، اس کا خون اور مال محفوظ ہو جاتا ہے، پھر اس کے باطن احوال کرید کرنے کے ہم مکلف نہیں ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے حالات میں فرمایا: ”کیا تونے اس کا دل پھاڑ کر دیکھا تھا کہ اس میں کفر چھپا ہوا ہے۔ “(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 277۔ (96) کلمہ توحید کا اقرار کرنے سے پہلے وہ معصوم الدم نہیں تھا یعنی اسے قتل کرنا درست تھا۔ کلمہ پڑھنے کے بعد وہ معصوم الدم ہو گیا۔ یعنی اسے قتل نہیں کیا جاسکتا۔ اگر تم نے اسے قتل کردیا تو تم محفوظ الدم نہیں رہو گے بلکہ تمھیں اس کے قصاص میں قتل کردیا جائے گا۔ 2۔ اس حدیث میں حضرت مقداد ؓ کے غزوہ بدر میں شریک ہونے کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4019