عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یوم عرفہ یوم النحر اور ایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید ہے، اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں“۔
Narrated Uqbah ibn Amir: The Prophet ﷺ said: The day of Arafah, the day of sacrifice, the days of tashriq are (the days of) our festival, O people of Islam. These are the days of eating and drinking.
USC-MSA web (English) Reference: Book 13 , Number 2413
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن أخرجه الترمذي (773 وسنده حسن) ورواه النسائي (3007 وسنده حسن)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2419
فوائد ومسائل: ایام تشریق اصلا، عید ہی کے ایام ہیں۔ ان میں عام نفلی روزہ رکھنا جائز نہیں۔ البتہ حج تمتع والا اگر قربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اس پر دس روزے لازم آتے ہیں۔ تین دن ایام حج میں اور سات گھر واپس آ کر۔ چنانچہ اس کو رخصت ہے کہ ایام تشریق میں یہ روزے رکھ لے۔ سورہ بقرہ میں ہے: (فَمَن تَمَتَّعَ بِٱلْعُمْرَةِ إِلَى ٱلْحَجِّ فَمَا ٱسْتَيْسَرَ مِنَ ٱلْهَدْىِ ۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَـٰثَةِ أَيَّامٍ فِى ٱلْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ)(البقرة: 196) البتہ اس میں یوم عرفہ کا جو ذکر ہے کہ اس دن بھی روزہ رکھنا صحیح نہیں ہے، تو یہ بات حاجیوں کے لیے ہے۔ ان کے لیے روزہ نہ رکھنا بہتر ہے، تاکہ وہ عرفات میں وقوف کی عبادت صحیح طریقے سے کر سکیں۔ لیکن غیر حاجیوں کے لیے یوم عرفہ (9ذوالحجہ) کے روزے کی یہی فضیلت ہے کہ ان کے لیے یہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2419
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3007
´عرفہ کے دن (حاجی کے لیے) روزہ رکھنے کی ممانعت کا بیان۔` عقبہ بن عامر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یوم عرفہ یوم نحر اور ایام تشریق (۱۱، ۱۲، ۱۳ ذی الحجہ کے دن) ہم اہل اسلام کی عید ہیں اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں ۱؎۔“[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3007]
اردو حاشہ: (1) ان دنوں میں سے یوم عرفہ تو صرف حاجیوں کے لیے عید ہے کیونکہ وہ اس دن اکٹھے ہو کر عبادات حج ادا کرتے ہیں۔ باقی مسلمانوں اس دن کچھ نہیں کرتے، لہٰذا یہ ان کے لیے عید نہیں۔ وہ اس دن روزہ رکھ سکتے ہیں بلکہ مستحب اور افضل ہے، البتہ حاجی لوگ اس دن عرفے میں روزہ نہیں رکھ سکتے کیونکہ یہ ان کی عید ہے، نیز اس دن مشکل کام خود کرنے پڑتے ہیں۔ منیٰ سے عرفات کو جانا اور وہاں موسم کی شدت اور اجتماع کی مشقت برداشت کرنا دل گردے کا کام ہے، اس دن روزہ رکھنے سے انھیں تنگی پیش آنے کا غالب امکان ہے، لہٰذا ان کے لیے روزہ رکھنا منع ہے۔ دوسرے لوگ اپنے گھروں میں ہوتے ہیں۔ وہ اس دن روزہ رکھ سکتے ہیں۔ یہ ان کے لیے خصوصی ثواب کا کام ہوگا۔ بعد والے دن، یعنی یوم نحر اور ایام تشریق سب مسلمانوں کے لیے عید ہیں کیونکہ سب لوگ قربانیاں ذبح کرتے ہیں اور ان دنوں میں اللہ کی ضیافت سے متمتع ہوتے ہیں۔ یہ چار دن اور عید الفطر کا دن تمام اہل اسلام کے لیے کھانے پینے کے دن ہیں، لہٰذا ان تمام ایام میں روزہ رکھنا تمام مسلمانوں کے لیے ہر جگہ ممنوع ہے۔ (2) ایام تشریق کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ان دنوں لوگ قربانی کا گوشت باریک بنا کر دھوپ میں سکھاتے تھے تاکہ خراب نہ ہو اور بعد میں کام آسکے۔ گوشت کو باریک کر کے دھوپ میں سکھانا عربی زبان میں ”تشریق“ کہلاتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3007
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 773
´ایام تشریق میں روزہ رکھنے کی حرمت کا بیان۔` عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یوم عرفہ ۱؎، یوم نحر ۲؎ اور ایام تشریق ۳؎ ہماری یعنی اہل اسلام کی عید کے دن ہیں، اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں۔“[سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 773]
اردو حاشہ: 1؎: یوم عرفہ سے مراد وہ دن ہے جس میں حاجی میدان عرفات میں ہوتے ہیں یعنی نویں ذی الحجہ بمطابق رؤیت مکہ مکرمہ۔
2؎: قربانی کا دن یعنی دسویں ذی الحجہ۔
3؎: ایام تشریق سے مراد گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں ذی الحجہ ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 773