(مرفوع) حدثنا مسدد، وخلف بن هشام المقرئ، قالا: حدثنا ابو عوانة، عن منصور، عن ربعي بن حراش، عن رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" اختلف الناس في آخر يوم من رمضان، فقدم اعرابيان فشهدا عند النبي صلى الله عليه وسلم بالله لاهلا الهلال امس عشية، فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس ان يفطروا". زاد خلف في حديثه:" وان يغدوا إلى مصلاهم". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَخَلَفُ بْنُ هِشَامٍ الْمُقْرِئُ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ، فَقَدِمَ أَعْرَابِيَّانِ فَشَهِدَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّهِ لَأَهَلَّا الْهِلَالَ أَمْسِ عَشِيَّةً، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ أَنْ يُفْطِرُوا". زَادَ خَلَفٌ فِي حَدِيثِهِ:" وَأَنْ يَغْدُوا إِلَى مُصَلَّاهُمْ".
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک شخص سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں رمضان کے آخری دن لوگوں میں (چاند کی رویت پر) اختلاف ہو گیا، تو دو اعرابی آئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اللہ کی قسم کھا کر گواہی دی کہ انہوں نے کل شام میں چاند دیکھا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو افطار کرنے اور عید گاہ چلنے کا حکم دیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 15574)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/314، 5/362) (صحیح)»
Narrated Ribi bin Hirash: On the authority of a man from the Companions of the Prophet ﷺ: People differed among themselves on the last day of Ramadan (about the appearance of the moon of Shawwal). Then two bedouins came and witnessed before the Prophet ﷺ swearing by Allah that they had sighted moon the previous evening. So the Messenger of Allah ﷺ commanded the people to break the fast. The narrator Khalaf has added in his version: "and that they should proceed to the place of prayer (forEid)".
USC-MSA web (English) Reference: Book 13 , Number 2332
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح أخرجه أحمد (5/314 وسنده صحيح) وقال الدارقطني (2/169 ح 2182): ’’ھذا إسناد حسن ثابت‘‘
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2339
فوائد ومسائل: رمضان المبارک کا چاند ہو جانے کا یقین یا تو شعبان کے تیس دن پورے ہو جانے پر ہے یا لوگوں کی گواہی پر کہ انہوں نے چاند دیکھا ہے، خواہ کوئی ایک عادل مسلمان ہی ہے، جیسے کہ اگلے باب کی احادیث میں آ رہا ہے۔ اسی طرح انتہائے رمضان کے موقع پر بھی۔ تاہم عام فقہاء عادل مسلمانوں کی رؤیت کو ضروری سمجھتے ہیں جبکہ ابوثور، ابوبکر بن منذر، اہل ظاہر اور امام حسن کی امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ سے ایک روایت میں ایک مسلمان کی رؤیت کو بھی حجت سمجھا گیا ہے۔ علامہ شوکانی رحمة اللہ علیہ کی ترجیح بھی یہی معلوم ہوتی ہے کہ روزے چھوڑنے کے موقع پر دو آدمیوں کی گواہی کسی معیاری دلیل سے ثابت نہیں۔ مالی معاملات ہی ایسے ہیں جہاں دو گواہ لازم ہوتے ہیں۔ مگر روزوں کے متعلق صریح حکم ہے کہ چاند دیکھ کر رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔ اور عبادت میں خبر واحد معتبر ہوتی ہے۔ (فقه السنة للسيد سابق‘ بم يثبت الشهر‘ ونيل الأوطار‘ باب ما يثبت به الصوم والفطر من الشهور) نیز عید کا چاند ہونے کی خبر اگر دیر سے ملے اور عید کے لیے جمع ہونا ممکن نہ ہو تو اگلے دن عید کی نماز پڑھ لی جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2339
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1558
´عیدالفطر کی نماز کے لیے (کسی سبب سے) دوسرے دن نکلنے کا بیان۔` ابو عمیر بن انس اپنے ایک چچا سے روایت کرتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے عید کا چاند دیکھا تو وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے (اور آپ سے اس کا ذکر کیا) آپ نے انہیں دن چڑھ آنے کے بعد حکم دیا کہ وہ روزہ توڑ دیں، اور عید کی نماز کی لیے کل نکلیں۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1558]
1558۔ اردو حاشیہ: ➊ ”روزہ کھول دینے کا حکم دیا“ گویا ضروری نہیں کہ سب لوگ یا ہر شہر اور بستی والے چاند دیکھیں بلکہ کچھ لوگ چاند دیکھ لیں تو وہ دوسرے لوگوں اور شہروں کے لیے بھی کافی ہو گا۔ ظاہر یہی ہے کہ چاند دیکھنے والے مذکورہ لوگ مدینہ سے باہر کے ہوں گے ورنہ وہ رات کے وقت ہی آپ کو اطلاع کر دیتے۔ اگر مدینے سے باہر والے لوگوں کا چاند دیکھنا مدینہ منورہ والوں کے لیے کافی ہے تو دیگر شہروں کے لیے بھی یہی حکم ہو گا، الایہ کہ مطلع میں اتنا فرق ہو کہ چاند نظر آنے میں ایک دن یا زائد کا فرق ممکن ہو۔ اس صورت میں ان کا حساب الگ ہو گا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ چاند کی اطلاع جب بھی ملے، اس پر عمل کرنا واجب ہے۔ روزہ رکھنے کی صورت میں اسے کھولنا واجب ہو گا۔ اگر اسی دن عید پڑھنا ممکن ہو تو اسی دن زوال سے قبل عید پڑھی جائے گی اور اگر زوال سے پہلے عید پڑھنا ممکن نہ ہو تو اگلے دن عید کی نماز ادا کی جائے گی۔ چونکہ چاند کی رؤیت میں عموماً ایک ہی دن کا فرق ممکن ہے، لہٰذا ایک دن سے زائد نماز عید مؤخر نہ کی جائے۔ احادیث میں بھی ایک ہی دن کا ذکر ہے۔ اس مسئلے میں دونوں عیدیں برابر ہیں۔ ➋ اگر بارش یا اندھیری وغیرہ کی وجہ سے اصل دن عید پڑھنا ممکن نہ ہو تو بھی یہی حکم ہے۔ ➌ ”نماز عید کے لیے نکلنے کا“ اصل یہی ہے کہ نماز عید آبادی سے باہر کھلے میدان میں پڑھی جائے کہ اس میں شان و شوکت کا زیادہ اظہار ہے۔ اور یہ بھی عید کا ایک مقصدہے۔ بعض حضرات نے اس حکم کی علت یہ قرار دی ہے کہ چونکہ مسجد میں پوری آبادی کے لوگ سما نہیں سکتے، اس لیے جگہ کی تنگی کے پیش نظر باہر نکلنے کا حکم دیا۔ گویا اگر کہیں مسجد اور اس کے ساتھ اتنی جگہ خالی ہو کہ تمام لوگ اس میں آرام سے نماز پڑھ سکیں تو نماز عید مسجد میں بھی پڑھی جا سکتی ہے جیسا کہ حرمین (بیت اللہ شریف اور مسجد نبوی شریف) میں ہوتا ہے۔ مگر ضروری نہیں کہ مذکورہ حکم کی علت یہی ہو، لہٰذا سنت نبوی پر عمل ہی اولیٰ ہے۔ واللہ اعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1558
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 693
´ہر شہر والوں کے لیے انہیں کے چاند دیکھنے کا اعتبار ہو گا۔` کریب بیان کرتے ہیں کہ ام فضل بنت حارث نے انہیں معاویہ رضی الله عنہ کے پاس شام بھیجا، تو میں شام آیا اور میں نے ان کی ضرورت پوری کی، اور (اسی درمیان) رمضان کا چاند نکل آیا، اور میں شام ہی میں تھا کہ ہم نے جمعہ کی رات کو چاند دیکھا ۱؎، پھر میں مہینے کے آخر میں مدینہ آیا تو ابن عباس رضی الله عنہما نے مجھ سے وہاں کے حالات پوچھے پھر انہوں نے چاند کا ذکر کیا اور کہا: تم لوگوں نے چاند کب دیکھا تھا؟ میں نے کہا: ہم نے اسے جمعہ کی رات کو دیکھا تھا، تو انہوں نے کہا: کیا تم نے بھی جمعہ کی رات کو دیکھا تھا؟ تو میں نے کہا: لوگوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 693]
اردو حاشہ: 1؎: اس سے معلوم ہوا کہ روزہ رکھنے اور توڑنے کے سلسلہ میں چاند کی رؤیت ضروری ہے، محض فلکی حساب کافی نہیں، رہا یہ مسئلہ کہ ایک علاقے کی رؤیت دوسرے علاقے کے لیے معتبر ہو گی یا نہیں؟ تو اس سلسلہ میں علماء میں اختلاف ہے جو گروہ معتبر مانتا ہے وہ کہتاہے کہ ((صُوْمُوْا)) اور ((اَفْطِرُوْا)) کے مخاطب ساری دنیا کے مسلمان ہیں اس لیے کسی ایک علاقے کی رویت دنیا کے سارے علاقوں کے لیے رویت ہے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے کے لیے کافی نہیں ان کا کہنا ہے کہ اس حکم کے مخاطب صرف وہ مسلمان ہیں جنھوں نے چاند دیکھا ہو، جن علاقوں میں مسلمانوں نے چاند دیکھا ہی نہیں وہ اس کے مخاطب ہی نہیں، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ہر علاقے کے لیے اپنی الگ رویت ہے جس کے مطابق وہ روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کے فیصلے کریں گے، اس سلسلہ میں ایک تیسرا قول بھی ہے کہ جو علاقے مطلع کے اعتبار سے قریب قریب ہیں یعنی ان کے طلوع و غروب میں زیادہ فرق نہیں ہے ان علاقوں میں ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقوں کے لیے کافی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 693