(موقوف) حدثنا احمد بن محمد المروزي، حدثنا موسى بن مسعود، حدثنا شبل، عن ابن ابي نجيح، قال: قال عطاء: قال ابن عباس:"نسخت هذه الآية: عدتها عند اهلها فتعتد حيث شاءت، وهو قول الله تعالى: غير إخراج سورة البقرة آية 240". قال عطاء:" إن شاءت اعتدت عند اهله وسكنت في وصيتها، وإن شاءت خرجت، لقول الله تعالى: فإن خرجن فلا جناح عليكم في ما فعلن سورة البقرة آية 240"، قال عطاء:" ثم جاء الميراث فنسخ السكنى تعتد حيث شاءت". (موقوف) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مَسْعُودٍ، حَدَّثَنَا شِبْلٌ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، قَالَ: قَالَ عَطَاءٌ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:"نَسَخَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: عِدَّتَهَا عِنْدَ أَهْلِهَا فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ، وَهُوَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: غَيْرَ إِخْرَاجٍ سورة البقرة آية 240". قَالَ عَطَاءٌ:" إِنْ شَاءَتِ اعْتَدَّتْ عِنْدَ أَهْلِهِ وَسَكَنَتْ فِي وَصِيَّتِهَا، وَإِنْ شَاءَتْ خَرَجَتْ، لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: فَإِنْ خَرَجْنَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ سورة البقرة آية 240"، قَالَ عَطَاءٌ:" ثُمَّ جَاءَ الْمِيرَاثُ فَنَسَخَ السُّكْنَى تَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں «غير إخراج»(سورة البقرہ: ۲۴۰) والی آیت جس میں عورت کو شوہر کے گھر والوں کے پاس عدت گزارنے کا حکم ہے منسوخ کر دی گئی ہے، اب وہ جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے، عطاء کہتے ہیں: اگر چاہے تو شوہر کے گھر والوں کے پاس عدت گزارے اور شوہر کی وصیت سے فائدہ اٹھا کر وہیں سکونت اختیار کرے، اور اگر چاہے تو اللہ کے فرمان «فإن خرجن فلا جناح عليكم فيما فعلن»”اگر وہ خود نکل جائیں تو ان کے کئے ہوئے کا تم پر کوئی گناہ نہیں“ کے مطابق نکل جائے، عطاء کہتے ہیں کہ پھر جب میراث کا حکم آ گیا، تو شوہر کے مکان میں رہائش کا حکم منسوخ ہو گیا اب وہ جہاں چاہے عدت گزارے۔
Ibn Abbas said “The following verse abrogated the rule of passing her waiting period with her people. A year’s maintenance and residence. She may pass her waiting period now anywhere she wishes. Ata said “If she wishes she can pass her waiting period with the people of her husband and live in the house left by her husband by will. Or she may shift if she wishes according to the pronouncement of Allah the Exalted. But if they leave (the residence) there is no blame on you for what they do. Ata’ said “Then the verses regarding inheritance were revealed. The commandment for living in a house (for one year) was repealed. She may pass her waiting period wherever she wishes.
USC-MSA web (English) Reference: Book 12 , Number 2294
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2301
فوائد ومسائل: خاوند کی وفات پر عورت کے لئے عدت کا مسئلہ سورۃ بقرہ کی دوآیات میں ذکر ہواہے، پہلی آیت ٢٣٤ میں ہے: (وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا) اور جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اور چھوڑ جائیں اپنی بیویاں، تو چاہے کہ وہ عورتیں اپنے آپ کو چار ماہ دس دن تک روکے رکھیں۔ اور اس کے بعد آیت 240 میں ہے: (وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَعْرُوفٍ) اور جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اپنی بیویاں، تو ان پر ہے کہ اپنی بیویوں کے لئے وصیت گر جائیں کہ انہیں ایک سال تک خرچ دینا ہے اور گھر سے نکالنا بھی نہیں اگر وہ ازخود نکل جائیں اور اپنے حق میں جو بھلی بات کریں تو اس کا تم پر گناہ نہیں ہے ان دونوں آیات کی تفسیر میں اصحاب ابن عباس رضی اللہ کا اختلاف ہے۔ جمہور کہتے ہیں کہ ایک سال تک تفقہ وسکنی کا حکم پہلے کا ہے۔ پھر اسے منسوخ کرکے چار ماہ دس دن کر دیا گیا۔ لیکن مجاہد اور عطاء حضرت ابن عباس سے بیان کرتے ہیں کہ چار ماہ دس دن عدت کا حکم شروع ہی سے تھا۔ اسے منسوخ کرکے ایک سال تک بڑھا دیا گیا۔ اب عورت پر لازم نہیں ہے کہ شوہر کے اہل میں عدتگ گزارے جیسے کہ (فإن خرجن) سے معلوم ہو رہا ہے ایسے ہی شوہر کے وارثوں پر جو پابندی تھی کہ ایک سال تک خرچ دیں اورسکنی بھی، تو وراثت کے احکام نازل ہونے پر یہ بھی منسوخ ہے۔ امام ابو داودؒ نے یہ باب ذکر کرکے ان حضرات کا موقف بیان کیا ہے، مگر یہ موقف گزشتہ حدیث فریعہ بنت مالک کی روشنی میں راجح نہیں ہے الا یہ کہ یہ سمجھا جائے کہ چار ماہ دس دن کی عدت اور ان دنوں میں شوہر کے اہل میں رہنا واجب ہے۔ بعد ازاں سات ماہ بیس دن میں عورت کو منتقل ہوجانے کی رخصت ہے، درج ذیل حدیث اسی تفصیل کی روشنی میں پڑھی جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2301