عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی سے اپنی بیوی کو مارنے کے تعلق سے پوچھ تاچھ نہ ہو گی“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/النکاح 51 (1986)، (تحفة الأشراف: 10407)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/ الکبری/ عشرة النساء (9167)، مسند احمد (1/20) (ضعیف)»
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2147
فوائد ومسائل: اگر تادیب کی ضرورت ہو، زبانی اور بے رخی سے بیوی اپنے معاملے کو سلجھاتی نہ ہوتو مارنے کی رخصت ہے جیسے کہ سورہ نساء آیت 34 میں آیا ہے۔ یہ روایت بعض ائمہ کے نزدیک ضعیف ہے۔ صحیح ہونے کی صورت میں میں اس کا مطلب وہ مارہے، جس کی اجازت شریعت نے دی ہے۔ یعنی ہلکی سی مار، جس کا مقصد بیوی کی اصلاح اور اسے متنبہ کرنا ہو۔ اگر خاوند ظلم کرے گا، حدسے تجاوز کرے گا یا اسے بلاوجہ مارے پیٹے گا تووہ ظالم ہوگا جس کا اسے حساب دینا پڑے گا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2147