Makhul has also transmitted a tradition like the one narrated by Sahl (b. Saad al-Saeedi). Makhul used to say: This is not lawful for anyone after the Messenger of Allah ﷺ.
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2108
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن إسناده حسن إلي مكحول، وھذا من قوله
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2113
فوائد ومسائل: 1: پہلی حدیث (2111) میں اس محترمہ خاتون کا اپنے آپ کو رسول ﷺکے لئے بطور ہبہ پیش کرنا ایک عظیم ترین شرف حاصل کرنے کی کوشش تھی جو کامیاب نہ ہو سکی مگر رسول ﷺ از خود اس کے لئے ولی بن گئے اور ایک صاحب قرآن سے اس کا نکاح کر دیا اور مسئلہ ہبہ صرف اور صرف رسول ﷺکے لئے محضوص ہے، کسی اور کے لئے نہیں۔ سورۃ احزاب میں ہے: (وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَنْ يَسْتَنْكِحَهَا خَالِصَةً لَكَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ)(الأحزاب: 50) اور ایمان دا ر عورت جو اپنا نفس نبی کو ہیبہ کر دے، اس صورت میں کہ نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہے، یہ خاص طور پر صرف آپ کے لئے ہے اور مومنوں کے لئے نہیں۔
2: حق مہر مال کی صورت میں ہونا ہی اولی ہے، کم سے کم مقدار بھی اس مقصد کو پورا کر دیتی ہے اور ایسی تمام روایات جو پانچ یا دس درہم وغیرہ کو متعین کرنے کے بارے میں آئی ہیں تا قابل حجت ہیں۔
3: اس میں یہ بھی ہے کہ ازحد فقیر کنگال کا بھی نکاح کیا جا سکتا ہے۔
4: اور تعلیم کو بھی حق مہر بنایا جا سکتا ہے، امام شافعی، امام احمد ؒ اور ان کے اصحاب اسی کے قائل ہیں، متحدہ ہندوستان میں تحریک جہاد کے موسسین نے اس سنت کو زندہ کیا تھا۔ مولانا ولایت علی ؒ نے جنہوں نے شاہ اسماعیل شہید ؒ کے بعد تحریک جہاد کی قیادت سنبھالی اور اس راہ میں بے مثال قربانی اور عزیمت کا نمونہ پیش کیا، متحدہ ہند میں احیائے سنت کے سلسلے میں بھی بڑے سرگرم رہے۔ نکاح بیوگان کے سلسلہ میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک شخص عبد الغنی انگر نہسوی (جو زمرہ مساکین میں سے تھے) کا عقد ایک بیوہ عورت سے تعلم قرآن مہر قرار دے کر کر دیا۔ (ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک) امام ابو حنیفہ اور امام مالک ؒ اس کے قائل نہیں ہیں، جیسے کہ آخری اثر میں جنات مکحول ؒ سے منقول ہوا ہے مگر یہ قول مرجوع ہے۔
5: کوئی خاتون اپنژ نکاح کے سلسلے میں جنبانی کرے تو کوئی عیب کی بات نہیں ہے ایسے ہی کوئی ولی اپنی زیر تولیت لڑکی کے لئے رشتے آنے کا انتظار کرنے کی بجائے از خو دکسی سے بات کرے تو یہ بھی عیب والی بات نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2113