(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن سفيان، حدثني عاصم بن بهدلة، عن زر، عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يقال لصاحب القرآن اقرا وارتق ورتل كما كنت ترتل في الدنيا، فإن منزلك عند آخر آية تقرؤها". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا، فَإِنَّ مَنْزِلَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَؤُهَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صاحب قرآن (حافظ قرآن یا ناظرہ خواں) سے کہا جائے گا: پڑھتے جاؤ اور چڑھتے جاؤ اور عمدگی کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جیسا کہ تم دنیا میں عمدگی سے پڑھتے تھے، تمہاری منزل وہاں ہے، جہاں تم آخری آیت پڑھ کر قرآت ختم کرو گے ۲؎“۔
وضاحت: وضاحت: قواعد تجوید کی رعایت کرتے ہوئے قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کا نام ترتیل ہے۔ ۲؎: یعنی ایک آیت پڑھ کر ایک درجہ طے کرو گے پھر دوسری آیت سے دوسرا درجہ، اسی طرح جتنی آیتیں پڑھتے جاؤ گے اتنے درجے اور مراتب اوپر اٹھتے چلے جاؤ گے جہاں آخری آیت پڑھو گے وہیں تمہارا مقام ہو گا۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/فضائل القرآن 18 (2914)، ن الکبری / فضائل القرآن (8056)، (تحفة الأشراف:8627)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/192) (حسن صحیح)»
Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-As: The Messenger of Allah ﷺ said: One who was devoted to the Quran will be told to recite, ascend and recite carefully as he recited carefully when he was in the world, for he will reach his abode when he comes to the last verse he recites.
USC-MSA web (English) Reference: Book 8 , Number 1459
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (2134)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1464
1464. اردو حاشیہ: ➊ سورہ مزمل میں حکم ہے کہ [وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا) یعنی قرآن کریم کو ٹھر ٹھر کر پڑھو۔ یعنی جلدی نہ کی جائے۔ اور الفاظ و معنی سے حظ حاصل کیا جائے۔ ➋ اس حدیث میں مخلص باعمل حفاظ قراء اور قرآن کی تلاوت کو اپنا معمول بنانے والوں کی فضیلت کا بیان ہے۔ کہ عام مسلمانوں کے مقابلے میں یہ لوگ سب سے افضل ہوں گے۔ جب کہ بعض علماء کا یہ قول بھی ہے۔ کہ قرآن کے تقاضوں پر عمل بھی بمعنی قراءت ہی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ [كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ] [ص۔29] یہ عظیم کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے۔ بڑی با برکت ہے۔ تاکہ لوگ اس کی آیات میں غوروفکر کریں۔ اور عقل والے نصیحت پکڑیں۔ اور ایسا حفظ اور ایسی تلاوت جو اخلاص اور عمل سے خالی ہو۔ اس پر مذکورہ درجات مرتب نہیں ہوں گے۔ العیاذ باللہ۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1464
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2914
´باب:۔۔۔` عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(قیامت کے دن) صاحب قرآن سے کہا جائے گا: (قرآن) پڑھتا جا اور (بلندی کی طرف) چڑھتا جا۔ اور ویسے ہی ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جس طرح تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ پڑھتا تھا۔ پس تیری منزل وہ ہو گی جہاں تیری آخری آیت کی تلاوت ختم ہو گی“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2914]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: معلوم ہوا کہ قرآن پڑھنے کی بہت بڑی فضیلت ہے اور جسے قرآن جس قدر یاد ہو گا وہ اپنے پڑھنے کے مطابق جنت میں مقام حاصل کرے گا، یعنی جتنا قرآن یاد ہو گا اسی حساب سے وہ ترتیل سے پڑھتا جائے گا اور جنت کے درجات پر فائز ہوتا چلا جائے گا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2914