(مرفوع) حدثنا هارون بن عبد الله البزاز، حدثنا مكي بن إبراهيم، حدثنا عبد الله يعني ابن سعيد بن ابي هند، عن ابي النضر، عن بسر بن سعيد، عن زيد بن ثابت، انه قال: احتجر رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد حجرة، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج من الليل فيصلي فيها، قال: فصلوا معه لصلاته، يعني رجالا، وكانوا ياتونه كل ليلة، حتى إذا كان ليلة من الليالي لم يخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فتنحنحوا ورفعوا اصواتهم وحصبوا بابه، قال: فخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم مغضبا، فقال:" يا ايها الناس، ما زال بكم صنيعكم حتى ظننت ان ستكتب عليكم، فعليكم بالصلاة في بيوتكم، فإن خير صلاة المرء في بيته إلا الصلاة المكتوبة". (مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّهُ قَالَ: احْتَجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ حُجْرَةً، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ مِنَ اللَّيْلِ فَيُصَلِّي فِيهَا، قَالَ: فَصَلَّوْا مَعَهُ لِصَلَاتِهِ، يَعْنِي رِجَالًا، وَكَانُوا يَأْتُونَهُ كُلَّ لَيْلَةٍ، حَتَّى إِذَا كَانَ لَيْلَةٌ مِنَ اللَّيَالِي لَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَنَحْنَحُوا وَرَفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ وَحَصَبُوا بَابَهُ، قَالَ: فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُغْضَبًا، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، مَا زَالَ بِكُمْ صَنِيعُكُمْ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنْ سَتُكْتَبَ عَلَيْكُمْ، فَعَلَيْكُمْ بِالصَّلَاةِ فِي بُيُوتِكُمْ، فَإِنَّ خَيْرَ صَلَاةِ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ".
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے ایک حصہ کو چٹائی سے گھیر کر ایک حجرہ بنا لیا، آپ رات کو نکلتے اور اس میں نماز پڑھتے تھے، کچھ لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھنی شروع کر دی وہ ہر رات آپ کے پاس آنے لگے یہاں تک کہ ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف نہیں نکلے، لوگ کھنکھارنے اور آوازیں بلند کرنے لگے، اور آپ کے دروازے پر کنکر مارنے لگے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں ان کی طرف نکلے اور فرمایا: ”لوگو! تم مسلسل ایسا کئے جا رہے تھے یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ کہیں تم پر یہ فرض نہ کر دی جائے، لہٰذا اب تم کو چاہیئے کہ گھروں میں نماز پڑھا کرو اس لیے کہ آدمی کی سب سے بہتر نماز وہ ہے جسے وہ اپنے گھر میں پڑھے ۱؎ سوائے فرض نماز کے“۔
وضاحت: ۱؎: یہ حکم تمام نفلی نماز کو شامل ہے البتہ اس حکم سے وہ نماز مستثنیٰ ہے جس کا شمار شعائر اسلام میں سے ہے مثلاً عیدین، استسقا اور کسوف و خسوف (چاند اور سورج گرہن) کی نماز۔
تخریج الحدیث: «انظرحدیث رقم (1044)، (تحفة الأشراف:3698) (صحیح)»
Zaid bin Thabit said: The Messenger of Allah ﷺ built a chamber in the mosque. He used to come out at night and pray there. They (the people) also prayed along with him. They would come (to prayer) every night. If on any night the Messenger of Allah ﷺ did not come out, they would cough, raise their voices and throw pebbles and sand on his door. The Messenger of Allah ﷺ came out to time in anger and said: O People, you kept on doing this till I thought that it will be prescribed for you. Offer your prayers in your houses, for a man's prayer is better in his house except obligatory prayer.
USC-MSA web (English) Reference: Book 8 , Number 1442
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (6113) صحيح مسلم (781)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1447
1447. اردو حاشیہ: ➊ یہ نمازیں رمضان کے قیام اللیل کے سلسلے کی ہیں۔ جن کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ ➋ مردوں کےلئے نوافل گھر میں پڑھنا افضل ہیں۔ مگر عورتوں کے لئے فرض بھی گھروں میں افضل ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1447
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1600
´گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب اور اس کی فضیلت کا بیان۔` زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں چٹائی سے گھیر کر ایک کمرہ بنایا، تو آپ نے اس میں کئی راتیں نمازیں پڑھیں یہاں تک کہ لوگ آپ کے پاس جمع ہونے لگے، پھر ان لوگوں نے ایک رات آپ کی آواز نہیں سنی، وہ سمجھے کہ آپ سو گئے ہیں، تو ان میں سے کچھ لوگ کھکھارنے لگے، تاکہ آپ ان کی طرف نکلیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمہیں اس کام میں برابر لگا دیکھا تو ڈرا کہ کہیں وہ تم پر فرض نہ کر دی جائے، اور اگر وہ تم پر فرض کر دی گئی تو تم اسے ادا نہیں کر سکو گے، تو لوگو! تم اپنے گھروں میں نمازیں پڑھا کرو، کیونکہ آدمی کی سب سے افضل (بہترین) نماز وہ ہے جو اس کے گھر میں ہو سوائے فرض نماز کے۔“[سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1600]
1600۔ اردو حاشیہ: ➊ دوسری روایات میں صراحت ہے کہ یہ رمضان المبارک کی بات ہے اور یہاں رات کی نماز سے مراد تراویح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ سا بنانے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ معتکف ہوں گے ورنہ آپ رات کی نماز گھر میں پڑھا کرتے تھے۔ یا ممکن ہے کہ گھر میں کسی وجہ سے تنگی ہو اور آپ نے علیحدگی میں نماز پڑھنے کے لیے چٹائی کھڑی کی ہو۔ ➋ ”فرض نہ کر دی جائے“ رمضان المبارک میں تراویح کا فرض ہوجانا پانچ نمازوں میں اضافے کے مترادف نہیں کہ اعتراض پیدا ہوکہ (لا یبدل القول لذی) کے الفاظ (جواللہ تعالیٰ نے لیلۃ الاسراء میں پانچ نماز کی فرضیت کے وقت فرمائے تھے) کے بعد تو فرضیت کا خطرہ نہیں تھا کیونکہ اس قول میں صرف روزانہ کی پانچ نمازوں میں اضافہ یا کمی کی نفی کی گئی ہے اور تراویح کی، بالفرض، فرضیت سے یومیہ نمازوں میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد فرضیت کا خطرہ ناپید ہو گیا، لہٰذا نماز تراویح کو مسجد میں مستقل باجماعت جاری کر دیا گیا جو خلفائے راشدین کے دور سے لے کر اب تک بلانزاع امت میں جاری و ساری ہے اور اجماعی مسئلہ ہے اور سنت المسلمین بن چکا ہے۔ اب کسی مسجد کو اس سعادت سے محروم نہیں رکھا جائے گا، البتہ اگر کوئی شخص انفرادی طور پر گھر میں ادا کرنا چاہے تو بھی جائز ہے مگر ضروری ہے کہ وہ نماز تراویح میں قرآن مجید زیادہ پڑھنے کے قابل ہوتاکہ اصل مقصد پورا ہو، نہ کہ صرف رکعات کی گنتی پوری کرے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1600
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1044
´آدمی کے اپنے گھر میں نفل پڑھنے کا بیان۔` زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کی نماز اس کے اپنے گھر میں اس کی میری اس مسجد میں نماز سے افضل ہے سوائے فرض نماز کے۔“[سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1044]
1044۔ اردو حاشیہ: ➊ یہ ارشاد مردوں کو ہے عورتوں کو نہیں کیونکہ ان کے لئے فرض نماز بھی گھر میں پڑھنا زیادہ افضل ہے۔ اگرچہ جماعت میں آنے کی اجازت ہے۔ ➋ بیت الحرام اور بیت المقدس بھی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس ہیں۔ ➌ ان نوافل سے مراد ایسے نوافل ہیں۔ جو مسجد سے مخصوص نہیں، مثلاً تحیۃ المسجد اور جمعہ سے پہلے کے نوافل وغیرہ۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1044
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 322
´نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان` سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھاس پھوس سے بنی ہوئی چٹائی سے ایک چھوٹا (خیمہ نما) حجرہ بنایا اور اس میں نماز پڑھنے لگے۔ لوگوں کو جب معلوم ہوا تو وہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے لگے۔ اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ مرد کی اپنے گھر میں نماز افضل ہے سوائے فرض نماز کے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 322»
تخریج: «أخرجه البخاري، الأذان، باب صلاة الليل، حديث:731، ومسلم، صلاة المسافرين، باب استحباب صلاة النافلة في بيته، حديث:781.»
تشریح: 1. یہ ماہ رمضان کا موقع تھا کہ آپ نے اپنے لیے مسجد میں الگ ایک مختصر سی مخصوص جگہ بنالی۔ 2. یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اگر ایسا کرنا مقتدیوں اور نمازیوں کے لیے باعث ضرر اور تکلیف نہ ہو تو مسجد میں مخصوص جگہ بنائی جا سکتی ہے۔ 3.مکمل روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رات کی نماز پڑھتے تھے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو علم ہوا تو انھوں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھنا شروع کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات دیر سے اس حجرے سے باہر نکلے اور فرمایا: ”میں نے تمھارا حال دیکھ لیا ہے‘ اپنے گھروں میں نماز پڑھو کیونکہ فرض نماز کے علاوہ مردوں کی نماز گھر میں افضل ہے۔ “
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 322
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1825
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چٹائی کا ایک چھوٹا سا حجرہ بنوایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں نماز پڑھنے کے لئے تشریف لائے، لو گوں نے اس تک آپﷺ کا پیچھا کیا اور آ کر آپﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھنے لگے، پھر ایک اور رات آئے اور جمع ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس آنے میں تا خیر کر دی اور ان کے پاس تشریف نہ لائے، صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1825]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) خَصْفَةٌ: کھجور کے پتے، حَصِيْرٌ: چٹائی جو کھجور کے پتوں ہی سے بنائی جاتی ہے، اور آپﷺ نے ایک محفوظ اور لوگوں کی نظروں سے اوجھل اپنے لیے مسجد میں ایک طرف چٹائی کا احاطہ بنایا، تاکہ اس کے اندر کھڑے ہو کر نماز پڑھیں۔ (2) تَتَبَّعَ اِلَيْهِ رِجَالٌ: تلاش و جستجو سے لوگ وہاں تک پہنچ گئے، اور ایک گروہ جمع ہو گیا۔ فوائد ومسائل: حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں اختصارکے ساتھ آپﷺ کی نماز تراویح کا ذکر ہے جس پر بحث گزر چکی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1825
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 731
731. حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک میں ایک حجرہ بنایا تھا، میرا گمان ہے کہ وہ چٹائی کا تھا۔ آپ نے کئی راتیں اس میں نماز پڑھی۔ آپ کے صحابہ میں سے کئی لوگوں نے آپ کی اقتدا میں نماز ادا کی۔ جب آپ کو ان کے متعلق معلوم ہوا تو آپ بیٹھ رہے، پھر ان کی طرف تشریف لائے اور فرمایا: ”میں نے تمہارا عمل دیکھا اور تمہارا ارادہ پہچان لیا ہے۔ اے لوگو! اپنے گھروں میں نماز پڑھا کیونکہ افضل نماز آدمی کی وہی ہے جو اس کے گھر میں ادا ہو، مگر فرض نماز (کہ اس کی ادائیگی مسجد میں ہونی چاہئے)۔“ عفان بن مسلم نے کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، اس نے کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، اس نے بتایا کہ میں نے ابونضر بن ابو امیہ سے سنا وہ بسر بن سعید سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت زید (بن ثابت ؓ) سے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:731]
حدیث حاشیہ: اس سند کے بیان کرنے سے حضرت امام بخاری ؒ کی غرض یہ ہے کہ موسیٰ بن عقبہ کا سماع ابوالنضر سے ثابت کریں جس کی اس روایت میں تصریح ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 731
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6113
6113. حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے کھجور کی شاخوں یا بوریے سے چھوٹا سا حجرہ بنایا۔ وہاں آپ (تہجد کی) نماز پڑھا کرتے تھے چند لوگ وہاں آ گئے اور انہوں نے آپ کی اقتدار میں نماز پڑھنا شروع کر دی۔ پھر وہ دوسری رات آئے اور ٹھہرے رہے لیکن آپ نے ان سے تا خیر کی اور باہر ان کے پاس تشریف نہ لائے۔ لوگ آوازیں بلند کرنے لگے اور دروازے کو کنکریاں مارنا شروع کر دیں۔ رسول اللہ ﷺ غصے کی حالت میں باہر تشریف لائے اور فرمایا: ”تمہارے اس انداز سے مجھے خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ یہ نماز تم فرض ہو جائے گی۔ تم پر لازم ہے کہ نفل نماز اپنے گھروں میں پڑھو کیونکہ آدمی نماز کے علاوہ بہترین نماز وہ ہے جو وہ اپنے گھر میں پڑھے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6113]
حدیث حاشیہ: حدیث میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ناروا سوال پر غصہ کرنا مذکور ہے، یہی باب سے مطابقت ہے گھر میں نماز سے نفل نمازیں مراد ہیں۔ فرض نماز کا محل مساجد ہیں بلا عذر شرعی فرض نماز گھر میں پڑھے وہ بہت سے ثواب سے محروم رہ گیا۔ صحابہ کا آپ کو آواز دینا اطلاعاً مکان پر کنکری پھینک کر آپ کو بلانا، نماز تہجد آپ کی اقتداء میں ادا کرنے کے شوق میں تھا۔ کھوئے ہوئے اونٹ کے بارے میں آپ کا حکم عرب کے ماحول کے مطابق تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6113
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7290
7290. سیدنا زیدہ بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مسجد میں چٹائی سے ایک حجرہ سا بنایا پھر رسول اللہ ﷺ نے چند راتیں اس میں نماز پڑھی حتی کہ بہت سے لوگ جمع ہوگئے (اور آپ کے ساتھ نماز ادا کرنے لگے)۔ ایک رات انہوں نے آپ ﷺ کی آواز نہ سنی تو انہوں نے سمجھا کہ آپ سو گئے ہیں اس لیے کچھ صحابہ نے کھانسنا شروع کر دیا تاکہ آپ باہر تشریف لائیں۔ آپ نے فرمایا: ”میں تم لوگوں کے کام سے واقف تھا لیکن اس ڈر سے باہر نہیں آیا، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر یہ (نماز تراویح) فرض ہو جائے، پھر تم اسے قائم نہ رکھ سکو گے۔ اے لوگو! یہ نماز تم اپنے گھروں پر پڑھا کرو کیونکہ فرض نماز کے علاوہ انسان کی سب سے افضل نماز اس کے گھر میں ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7290]
حدیث حاشیہ: یا جو نماز جماعت سے ادا کی جاتی ہے جیسے عیدین گہن کی نماز وغیرہ یا تحیۃ المسجد کہ وہ خاص مسجد ہی کے تعظیم کے لیے ہے۔ اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے یہ ہے کہ ان لوگوں کو مسجد میں اس نماز کا حکم نہیں ہوا تھا مگر انہوں نے اپنے نفس پر سختی کی‘ آپ نے اس سے باز رکھا۔ معلوم ہوا کہ سنت کی پیروی افضل ہے اور خلافت سنت عبادت کے لیے سختی اٹھا نا قیدیں لگانا کوئی عمدہ بات نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7290
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:731
731. حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک میں ایک حجرہ بنایا تھا، میرا گمان ہے کہ وہ چٹائی کا تھا۔ آپ نے کئی راتیں اس میں نماز پڑھی۔ آپ کے صحابہ میں سے کئی لوگوں نے آپ کی اقتدا میں نماز ادا کی۔ جب آپ کو ان کے متعلق معلوم ہوا تو آپ بیٹھ رہے، پھر ان کی طرف تشریف لائے اور فرمایا: ”میں نے تمہارا عمل دیکھا اور تمہارا ارادہ پہچان لیا ہے۔ اے لوگو! اپنے گھروں میں نماز پڑھا کیونکہ افضل نماز آدمی کی وہی ہے جو اس کے گھر میں ادا ہو، مگر فرض نماز (کہ اس کی ادائیگی مسجد میں ہونی چاہئے)۔“ عفان بن مسلم نے کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، اس نے کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، اس نے بتایا کہ میں نے ابونضر بن ابو امیہ سے سنا وہ بسر بن سعید سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت زید (بن ثابت ؓ) سے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:731]
حدیث حاشیہ: (1) حدیث عائشہ کے متعلق دیگر روایات میں وضاحت ہے کہ ایسا ماہ رمضان میں ہوا۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1129) نیز چوتھی رات لوگ اتنے جمع ہوگئے کہ مسجد ان وجہ سے تنگ ہوگئی۔ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث: 924) آپ نے نماز فجر کے بعد لوگوں سے خطاب فرمایا: ”لوگو! وہی اعمال بجالاؤ جن کی کی بجاآوری کی تم ہمت رکھتے ہو۔ اللہ تعالیٰ تواپنے دینے میں تنگ دلی نہیں دکھائے گا، البتہ تم خود تنگ آکر اس عمل کو چھوڑ دو گے۔ اللہ کے ہاں پسندیدہ عمل وہی ہے جس پر دوام کیا جائے اگرچہ وہ مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہوں۔ “(صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5861) حدیث زید بن ثابت کے متعلق دیگر روایات میں مزید وضاحت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ اگلے دن لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے تشریف نہ لائے تو انھوں نے بآواز بلند تسبیحات کہنا شروع کر دیں۔ بعض نے دروازے کو کنکریاں مارنا شروع کردیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ غصے کی حالت میں ان کے ہاں تشریف لائے۔ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6113) ایک روایت میں ہے کہ جب لوگوں نے اگلے دن نبی ﷺ کی آواز نہ سنی تو خیال کیا کہ شاید آپ سورہے ہوں، اس لیے بآواز بلند کھانسنے لگے تاکہ آپ تشریف لائیں اور ہمیں نماز پڑھائیں۔ آپ نے فرمایا: ”مجھے اندیشہ ہے مبادا تمھارے ذوق وشوق کے پیش نظر نماز تہجد تم پر فرض ہوجائے۔ اگر فرض کردی گئی تو پھر تم اس کا اہتمام نہیں کرسکو گے۔ “(صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنة، حدیث: 7290)(2) شریعت نے نوافل کی ادائیگی مسجد میں اور فرائض گھروں میں ادا کرنے کو پسند نہیں فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ نماز سے پہلے اور بعد کی سنتیں عام طور پر گھر میں ادا کرتے تھے۔ صبح کی سنتیں تو نبی ﷺ سے مسجد میں پڑھنا ثابت ہی نہیں۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ نفل نماز کے لیے گھر اور مسجد کے ثواب میں وہی نسبت ہے جو جماعت اور تنہا نماز کے ثواب میں ہے۔ گھر میں نوافل پڑھنے کے کئی ایک فوائد ہیں: ٭انسان ریاکاری سے محفوظ رہتا ہے اور نماز کے ثواب کو کم کرنے والی بہت سی چیزوں سے حفاظت ہوجاتی ہے۔ ٭اس گھر میں اللہ کی رحمت وبرکت کا نزول ہوتا ہے جس میں نماز پڑھی جائے۔ ٭اس گھر میں اللہ کے فرشتے اترتے ہیں اور شیاطین وہاں سے بھاگ جاتے ہیں۔ (عمدة القاري: 372/4)(3) روایت کے آخر میں امام بخارى ؒ نے ایک مزید سند کا حوالہ دیا ہے۔ ان کی غرض یہ ہے کہ موسیٰ بن عقبہ کا سماع ابو نضر سے ثابت کیا جائے، چنانچہ آخری سند میں اس کی صراحت ہے۔ (فتح الباري: 280/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 731
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6113
6113. حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے کھجور کی شاخوں یا بوریے سے چھوٹا سا حجرہ بنایا۔ وہاں آپ (تہجد کی) نماز پڑھا کرتے تھے چند لوگ وہاں آ گئے اور انہوں نے آپ کی اقتدار میں نماز پڑھنا شروع کر دی۔ پھر وہ دوسری رات آئے اور ٹھہرے رہے لیکن آپ نے ان سے تا خیر کی اور باہر ان کے پاس تشریف نہ لائے۔ لوگ آوازیں بلند کرنے لگے اور دروازے کو کنکریاں مارنا شروع کر دیں۔ رسول اللہ ﷺ غصے کی حالت میں باہر تشریف لائے اور فرمایا: ”تمہارے اس انداز سے مجھے خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ یہ نماز تم فرض ہو جائے گی۔ تم پر لازم ہے کہ نفل نماز اپنے گھروں میں پڑھو کیونکہ آدمی نماز کے علاوہ بہترین نماز وہ ہے جو وہ اپنے گھر میں پڑھے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6113]
حدیث حاشیہ: (1) فرض نماز کا محل تو مساجد ہیں، اس کے علاوہ نوافل کی ادائیگی گھروں میں کی جائے۔ اگر کوئی انسان فرض نماز بھی اپنے گھر میں پڑھتا ہے تو وہ بہت بڑے ثواب سے محروم رہ جاتا ہے۔ (2) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خواہش تھی کہ نماز تہجد آپ کی اقتدا میں ادا کریں، اس لیے انہوں نے اپنی آوازیں بلند کیں اور دروازے کو کنکریاں ماریں، لیکن اس طرح آوازیں بلند کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں خلل انداز ہوا اور کنکریاں مارنا تو بہت ہی ادب کے خلاف تھا، اس لیے آپ کو غصہ آیا۔ آپ کا یہ اقدام امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے قبیل سے تھا، اس لیے آپ کا غصہ اللہ کے لیے تھا، آپ کی ذات کو اس میں کوئی دخل نہیں کیونکہ آپ ذاتی معاملات کے متعلق غصہ نہیں کرتے تھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6113
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7290
7290. سیدنا زیدہ بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مسجد میں چٹائی سے ایک حجرہ سا بنایا پھر رسول اللہ ﷺ نے چند راتیں اس میں نماز پڑھی حتی کہ بہت سے لوگ جمع ہوگئے (اور آپ کے ساتھ نماز ادا کرنے لگے)۔ ایک رات انہوں نے آپ ﷺ کی آواز نہ سنی تو انہوں نے سمجھا کہ آپ سو گئے ہیں اس لیے کچھ صحابہ نے کھانسنا شروع کر دیا تاکہ آپ باہر تشریف لائیں۔ آپ نے فرمایا: ”میں تم لوگوں کے کام سے واقف تھا لیکن اس ڈر سے باہر نہیں آیا، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر یہ (نماز تراویح) فرض ہو جائے، پھر تم اسے قائم نہ رکھ سکو گے۔ اے لوگو! یہ نماز تم اپنے گھروں پر پڑھا کرو کیونکہ فرض نماز کے علاوہ انسان کی سب سے افضل نماز اس کے گھر میں ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7290]
حدیث حاشیہ: 1۔ مذکورہ واقعہ رمضان المبارک میں نمازتراویح کے متعلق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں ایک جگہ چٹائی کا حجرہ بنایا تاکہ اس میں نماز پڑھیں اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکیں، لیکن لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں تین دن تک نماز تراویح ادا کی۔ چونکہ نزول وحی کا زمانہ تھا اور اس کےفرض ہونے کا خطرہ تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کےبعد جماعت کااہتمام ترک کردیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ اندیشہ ختم ہوگیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز تراویح کی جماعت کا اہتمام مسجد میں کردیا۔ 2۔ اس حدیث کا عنوان سے تعلق اس طرح ہے کہ لوگوں کو مسجد میں نماز تراویح ادا کرنے کا حکم نہیں ہوا تھا لیکن انھوں نے از خود اپنے آپ پر یہ پابندی عائد کرلی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر شفقت کرتے ہوئے انھیں اس سے باز رکھا۔ معلوم ہوا کہ سنت کی پیروی ہی میں نجات اور عزت ہے۔ خلاف سنت عبادت کے علاوہ سختی اٹھانا اورشرطیں لگانا اچھی بات نہیں۔ 3۔ واضح رہے کہ فرض نماز کے علاوہ نماز عید اور نماز گرہن وغیرہ مسجد میں ادا کی جاتی ہیں کیونہ یہ نماز شعائر اسلام سے تعلق رکھتی ہیں، اس لیے ان کا حکم فرض نماز جیسا ہے۔ اسی طرح تحیۃ المسجد اور طواف کی دورکعت بھی مسجد میں پڑھی جاتی ہیں تو یہ خارجی دلائل کی بنا پر حدیث میں مذکورہ عام حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7290