(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، عن هشام بن عمرو الفزاري، عن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول في آخر وتره:" اللهم إني اعوذ برضاك من سخطك، وبمعافاتك من عقوبتك، واعوذ بك منك لا احصي ثناء عليك انت كما اثنيت على نفسك". قال ابو داود: هشام اقدم شيخ لحماد، وبلغني عن يحيى بن معين، انه قال: لم يرو عنه غير حماد بن سلمة. قال ابو داود: روى عيسى بن يونس، عن سعيد بن ابي عروبة، عن قتادة، عن سعيد بن عبد الرحمن بن ابزى، عن ابيه، عن ابي بن كعب، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" قنت، يعني في الوتر، قبل الركوع". قال ابو داود: روى عيسى بن يونس هذا الحديث ايضا، عن فطر بن خليفة، عن زبيد، عن سعيد بن عبد الرحمن بن ابزى، عن ابيه، عن ابي بن كعب، عن النبي صلى الله عليه وسلم، مثله، وروي عن حفص بن غياث، عن مسعر، عن زبيد، عن سعيد بن عبد الرحمن بن ابزى، عن ابيه، عن ابي بن كعب، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" قنت في الوتر قبل الركوع". قال ابو داود: وحديث سعيد عن قتادة. رواه يزيد بن زريع، عن سعيد، عن قتادة، عن عزرة، عن سعيد بن عبد الرحمن بن ابزى، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، لم يذكر القنوت، ولا ذكر ابيا، وكذلك رواه عبد الاعلى، ومحمد بن بشر العبدي، وسماعه بالكوفة مع عيسى بن يونس، ولم يذكروا القنوت، وقد رواه ايضا هشام الدستوائي، وشعبة، عن قتادة، ولم يذكرا القنوت، وحديث زبيد. رواه وشعبة، وعبد الملك بن ابي سليمان، وجرير بن حازم كلهم، سليمان الاعمش، عن زبيد، لم يذكر احد منهم القنوت، إلا ما روي عن حفص بن غياث، عن مسعر، عن زبيد، فإنه قال في حديثه" إنه قنت قبل الركوع". قال ابو داود: وليس هو بالمشهور من حديث حفص نخاف ان يكون عن حفص، عن غير مسعر. قال ابو داود: ويروى ان ابيا كان يقنت في النصف من شهر رمضان. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عَمْرٍو الْفَزَارِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي آخِرِ وِتْرِهِ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سُخْطِكَ، وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: هِشَامٌ أَقْدَمُ شَيْخٍ لِحَمَّادٍ، وَبَلَغَنِي عَنْ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ، أَنَّهُ قَالَ: لَمْ يَرْوِ عَنْهُ غَيْرُ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" قَنَتَ، يَعْنِي فِي الْوِتْرِ، قَبْلَ الرُّكُوعِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى عِيسَى بْنُ يُونُسَ هَذَا الْحَدِيثَ أَيْضًا، عَنْ فِطْرِ بْنِ خَلِيفَةَ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ، وَرُوِيَ عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" قَنَتَ فِي الْوِتْرِ قَبْلَ الرُّكُوعِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَحَدِيثُ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ. رَوَاهُ يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمْ يَذْكُرِ الْقُنُوتَ، وَلَا ذَكَرَ أُبَيًّا، وَكَذَلِكَ رَوَاهُ عَبْدُ الْأَعْلَى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ، وَسَمَاعُهُ بِالْكُوفَةِ مَعَ عِيسَى بْنِ يُونُسَ، وَلَمْ يَذْكُرُوا الْقُنُوتَ، وَقَدْ رَوَاهُ أَيْضًا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، وَشُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، وَلَمْ يَذْكُرَا الْقُنُوتَ، وَحَدِيثُ زُبَيْدٍ. رَوَاهُ وَشُعْبَةُ، وَعَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، وَجَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ كُلُّهُمْ، سُلَيْمَانُ الْأَعْمَشُ، عَنْ زُبَيْدٍ، لَمْ يَذْكُرْ أَحَدٌ مِنْهُمُ الْقُنُوتَ، إِلَّا مَا رُوِيَ عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ زُبَيْدٍ، فَإِنَّهُ قَالَ فِي حَدِيثِهِ" إِنَّهُ قَنَتَ قَبْلَ الرُّكُوعِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَلَيْسَ هُوَ بِالْمَشْهُورِ مِنْ حَدِيثِ حَفْصٍ نَخَافُ أَنْ يَكُونَ عَنْ حَفْصٍ، عَنْ غَيْرِ مِسْعَرٍ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَيُرْوَى أَنَّ أُبَيًّا كَانَ يَقْنُتُ فِي النِّصْفِ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ.
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے آخر میں یہ دعا پڑھتے تھے: «اللهم إني أعوذ برضاك من سخطك، وبمعافاتك من عقوبتك، وأعوذ بك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك»”اے اللہ! میں تیری ناراضگی سے تیری رضا کی، تیری سزا سے تیری معافی کی اور تجھ سے تیری پناہ چاہتا ہوں، میں تیری تعریف شمار نہیں کر سکتا، تو اسی طرح ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف کی ہے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ہشام حماد کے سب سے پہلے استاذ ہیں اور مجھے یحییٰ بن معین کے واسطہ سے یہ بات پہنچی ہے کہ انہوں کہا ہے کہ ہشام سے سوائے حماد بن سلمہ کے کسی اور نے روایت نہیں کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عیسیٰ بن یونس نے سعید بن ابی عروبہ سے، سعید نے قتادہ سے، قتادہ نے سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزی سے، سعید نے اپنے والد عبدالرحمٰن بن ابزی سے اور ابن ابزی نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر میں قنوت رکوع سے پہلے پڑھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عیسیٰ بن یونس نے اس حدیث کو فطر بن خلیفہ سے بھی روایت کیا ہے اور فطر نے زبید سے، زبید نے سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزی سے، سعید نے اپنے والد عبدالرحمٰن بن ابزی سے، ابن ابزی نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے اور ابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ نیز حفص بن غیاث سے مروی ہے، انہوں نے مسعر سے، مسعر نے زبید سے، زبید نے سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے، سعید نے اپنے والد عبدالرحمٰن سے اور عبدالرحمٰن نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر میں رکوع سے قبل قنوت پڑھی“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: سعید کی حدیث قتادہ سے مروی ہے، اسے یزید بن زریع نے سعید سے، سعید نے قتادہ سے، قتادہ نے عزرہ سے، عزرہ نے سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزی سے، سعید نے اپنے والد عبدالرحمٰن بن ابزی سے اور ابن ابزی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، اس میں قنوت کا ذکر نہیں ہے اور نہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا۔ اور اسی طرح اسے عبدالاعلی اور محمد بن بشر العبدی نے روایت کیا ہے، اور ان کا سماع کوفہ میں عیسیٰ بن یونس کے ساتھ ہے، انہوں نے بھی قنوت کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔ نیز اسے ہشام دستوائی اور شعبہ نے قتادہ سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے بھی قنوت کا ذکر نہیں کیا ہے۔ زبید کی روایت کو سلیمان اعمش، شعبہ، عبدالملک بن ابی سلیمان اور جریر بن حازم سبھی نے روایت کیا ہے، ان میں سے کسی ایک نے بھی قنوت کا ذکر نہیں کیا ہے، سوائے حفص بن غیاث کی روایت کے جسے انہوں نے مسعر کے واسطے سے زبید سے نقل کیا ہے، اس میں رکوع سے پہلے قنوت کا ذکر ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حفص کی یہ حدیث مشہور نہیں ہے، ہم کو اندیشہ ہے کہ حفص نے مسعر کے علاوہ کسی اور سے روایت کی ہو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ بھی مروی ہے کہ ابی بن کعب قنوت رمضان کے نصف میں پڑھا کرتے تھے۔
Narrated Ali ibn Abu Talib: The Messenger of Allah ﷺ used to say at the end of his witr: "O Allah, I seek refuge in Thy good pleasure from Thy anger, and in Thy forgiveness from Thy punishment, and I seek refuge in Thy mercy from Thy wrath. I cannot reckon the praise due to Thee. Thou art as Thou hast praised Thyself. " Abu Dawud said: Hisham is the earliest teacher of Hammad. Yahya bin Main said: No one is reported to have narrated traditions form him except Hammad bin Salamah. Abu Dawud said: Ubayy bin Kab said: The Messenger of Allah ﷺ recited supplication in the witr before bowing. Abu Dawud said: This tradition has also been narrated by 'Isa bin Yunus through a different chain of narrators from Ubayy bin Kab. He also narrated it through a different chain of narrators on the authority of Ubayy bin Kab that the Messenger of Allah (saw) recited the supplication in the witr before bowing. Abu Dawud said: The chain of narrators of the tradition of Saeed from Qatadah goes: Yazid bin Zurai' narrated from Saeed, from Qatadah, from 'Azrah, from Saeed bin Abdur-Rahman bin Abza, on the authority of his father, from the Prophet ﷺ. This version does not mention the supplication and the name of Ubayy. This tradition has also been narrated by Abd al-A'la and Muhammad bin Bishr al-Abdi. He heard the traditions from 'Isa bin Yunus at Kufah. They did not mention the supplication in their version. This tradition has also been narrated by Hisham al-Dastuwa'i and Shubah from Qatadah. They did not mention the supplication in their version. The tradition of Zubaid has been narrated by Sulaiman al-Amash, Shubah, Abd al-Malik bin Abi Sulaiman, and Jarir bin Hazim; all of them narrated on the authority of Zubaid. None of them mention the supplication in his version, except in the tradition transmitted by Hafs bin Ghiyath from Misar from Zubaid; he narrated in his version that he (the Prophet) recited supplication before bowing. Abu Dawud said: This version of tradition is not well know. There is doubt that Hafs might have narrated this tradition from some other narrator than Misar. Abu Dawud said: It is reported that Ubayy (b. Kab) used to recited the supplication )in the witr) in the second half of Ramadan.
USC-MSA web (English) Reference: Book 8 , Number 1422
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (1276) أخرجه الترمذي (3566 وسنده صحيح) ورواه النسائي (1448 وسنده صحيح) وابن ماجه (1179)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1427
1427. اردو حاشیہ: ➊ دعائے قنوت وتر کی بابت حضرت ابی کعب سے مروی ہے۔رسول اللہ ﷺ تین وتر پڑھتے اور دعائے قنوت رکوع سے قبل پڑھتے۔ دیکھئے۔ [سنن نسائی، قیام اللیل، حدیث: 1700 و سنن ابن ماجة، إقامة الصلاة، حدیث: 1182) نیز مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا عمل مذکور ہے۔ کہ یہ قنوت وتر رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔ دیکھئے۔ [مصنف ابن أبي شیبة: 97/2] واضح رہے کہ مسنون طریق تو یہی ہے۔ کہ وتروں میں دعائے قنوت قبل از رکوع ہوا۔ البتہ قنوت نازلہ بالخصوص رکوع کے بعد ہی ثابت ہے۔ تاہم بعض علماء دعائے قنوت وتر رکوع کے بعد پڑھنے کے قائل ہیں۔ اور وہ بھی جائز ہے۔ لیکن علمائے محققین حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب مرعاۃ مولانا عبید اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ اوردیگر علمائے قنوت وتر قبل از رکوع والی روایات کو زیادہ ترصحیح کہا ہے۔ اور انہیں بعد از رکوع والی روایات پر ترجیح دی ہے۔ جس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ کہ افضل اور اولیٰ یہی ہے۔ کہ قنوت وتررکوع سے قبل پڑھی جائے۔ (واللہ اعلم) ➋ دعائے قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کے بارے میں کوئی مرفوع روایت نہیں ہے۔ تاہم مصنف ابن ابی شیبہ میں کچھ آثار ملتے ہیں۔ جن میں صرف ہاتھ اٹھانے کا تذکرہ ہے۔ دیکھئے۔ [مصنف ابن أبي شیبة: 101/2] بعض علماء کے نزدیک ہاتھ اُٹھا کر یا ہاتھ اُٹھائے بغیر دونوں طریقوں سے قنوت وتر پڑھنا صحیح ہے۔ تاہم ہاتھ اُٹھا کر دعائے قنوت پڑھنا اس لئے راحج ہے کہ ایک تو قنوت نازلہ میں نبی کریمﷺ سے ہاتھ اُٹھانا ثابت ہے۔ تو اس پر قیاس کرتےہوئے قنوت وتر میں بھی ہاتھ اُٹھانے صحیح ہوں گے۔ دوسرے بعض صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین سے قنوت وتر میں ہاتھ اُٹھانے کا ثبوت ملتا ہے۔ ➌ عام دعا کے اختتام پر ہاتھوں کو منہ پر پھیرنا گو کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ مگر بعض صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین مثلا حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ عمل ثابت ہے۔ دیکھئے۔ [الأدب المفرد، حدیث: 609] اس لئے اس کا جواز ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص دعائے قنوت کے بعد اپنے ہاتھ منہ پر نہیں پھیرتا تو اس کا یہ عمل صحیح ہے۔ کیونکہ اس کا ثبوت صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین سے بھی نہیں ملتا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1427
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1748
´وتر کی دعا کا بیان۔` علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وتر کے آخر میں یہ کلمات کہتے تھے: «اللہم إني أعوذ برضاك من سخطك وبمعافاتك من عقوبتك وأعوذ بك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك»”اے اللہ! میں تیری خوشی کی تیرے غصے سے پناہ مانگتا ہوں، تیرے بچاؤ کی تیری پکڑ سے پناہ مانگتا ہوں، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں تجھ سے، میں تیری تعریف نہیں کر سکتا تو ویسے ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف کی ہے۔“[سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1748]
1748۔ اردو حاشیہ: ➊ مذکورہ حدیث میں یہ صراحت نہیں کہ اس دعا کا مقام کیا ہے؟ تشہد کے آخر میں یا سلام کے بعد۔ مؤخر الذکر مفہوم زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ایک روایت میں آپ سے یہ الفاظ بستر پر لیٹنے وقت پڑھنے بھی منقول ہیں۔ پیچھے حدیث نمبر 1101 میں یہ الفاظ تہجد کے سجدے کے دوران میں بھی آپ سے پڑھنے منقول ہیں۔ امام نسائی رحمہ اللہ کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس دعا کو قنوت وتر میں سمجھتے ہیں۔ «اخروترہ» کے یہ معنی بھی ممکن ہیں۔ لیکن ابن قیم رحمہ اللہ کی تحقیق میں افی اخر وترہ سے مراد سلام کے بعد ان کلمات کا پڑھنا ہے۔ ان کے بقول سنن نسائی کی ایک روایت میں نماز سے فراغت کی تصریح ملتی ہے۔ دیکھیے: (زادالمیعاد: 1؍336) ➋ قنوت وتر سارا سال ہی جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس موضوع سے متعلقہ عام روایات میں دعائے وتر کا ذکر نہیں ملتا۔ اگر آپ سے اس دعا کے پڑھنے کا بدستور ثبوت ملتا ہوتا تو یقیناًً منقول بھی ہوتا، اس سے پتا چلتا ہے کہ دعائے وتر کبھی رہ جائے یا اسے چھوڑ بھی دیا جائے تو جائز ہے سجدۂ سہو کی ضرورت نہیں کیونکہ اس دعا کی حیثیت وجوب کی نہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قنوت وتر کا ثبوت کبھی کبھار ملتا ہے۔ تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (اصل صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم: 3؍968)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1748
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1179
´وتر میں دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔` علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے آخر میں یہ دعا پڑھتے تھے: «اللهم إني أعوذ برضاك من سخطك وأعوذ بمعافاتك من عقوبتك وأعوذ بك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك»”اے اللہ! میں تیری رضا مندی کے ذریعہ تیری ناراضی سے پناہ مانگتا ہوں، اور تیری معافی کے ذریعہ تیری سزاؤں سے پناہ مانگتا ہوں، اور تیرے رحم و کرم کے ذریعہ تیرے غیظ و غضب سے پناہ مانگتا ہوں، میں تیری حمد و ثنا کو شمار نہیں کر سکتا، تو ویسا ہی ہے جیسا کہ تو نے خود اپنی تعریف کی ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1179]
اردو حاشہ: فائدہ: دعائے قنوت جوگزشتہ حدیث میں بیان ہوئی اس کی جگہ یہ دعا پڑھی جاسکتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1179
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3566
´وتر کی دعا کا بیان۔` علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی (نماز) وتر میں یہ دعا پڑھتے تھے: «اللهم إني أعوذ برضاك من سخطك وأعوذ بمعافاتك من عقوبتك وأعوذ بك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك»۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3566]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اے اللہ! میں تیری ناراضگی سے بچ کر تیری رضا و خوشنودی کی پناہ میں آتا ہوں، اے اللہ! میں تیرے عذاب و سزا سے بچ کر تیرے عفو ودرگزر کی پناہ چاہتا ہوں، اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں تیرے غضب سے، میں تیری ثناء (تعریف) کا احاطہ و شمار نہیں کر سکتا تو تو ویسا ہی ہے جیسا کہ تو نے خود اپنے آپ کی ثناء و تعریف کی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3566