(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا وكيع، حدثنا محمد بن قيس الاسدي، عن الحكم بن عتيبة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: بت عند خالتي ميمونة، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ما امسى، فقال:" اصلى الغلام؟" قالوا: نعم،" فاضطجع حتى إذا مضى من الليل ما شاء الله قام فتوضا، ثم صلى سبعا او خمسا اوتر بهن لم يسلم إلا في آخرهن". (مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قَيْسٍ الْأَسَدِيُّ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَا أَمْسَى، فَقَالَ:" أَصَلَّى الْغُلَامُ؟" قَالُوا: نَعَمْ،" فَاضْطَجَعَ حَتَّى إِذَا مَضَى مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ قَامَ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ صَلَّى سَبْعًا أَوْ خَمْسًا أَوْتَرَ بِهِنَّ لَمْ يُسَلِّمْ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک رات اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ کے پاس رہا، شام ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور پوچھا: ”کیا بچے نے نماز پڑھ لی؟“ لوگوں نے کہا: ہاں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے یہاں تک کہ جب رات اس قدر گزر گئی جتنی اللہ کو منظور تھی تو آپ اٹھے اور وضو کر کے سات یا پانچ رکعتیں وتر کی پڑھیں اور صرف آخر میں سلام پھیرا۔
Narrated Ibn Abbas: I spent a night with my maternal aunt Maimunah. The Messenger of Allah ﷺ came after the evening has come. He asked: Did the boy pray ? She said: Yes. Then he lay down till a part of night had passed as much as Allah willed; he got up, performed ablution and prayed seven or five rak'ahs, observing witr with them. He uttered the salutation only in the last of them.
USC-MSA web (English) Reference: Book 5 , Number 1351
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1356
1356. اردو حاشیہ: فائدہ: گھر والوں کی بالخصوص ماں کی ذمہ داری ہے کہ نوخیز بچوں کی نماز اور دیگر اعمال خیر کا عادی بنائے اور والد یا سرپرست کا حق ہے کہ ان امور کے متعلق خبردار رہے یا باز پرس کرتا رہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1356