سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
ابواب: قیام الیل کے احکام و مسائل
Prayer (Abwab Qiyam ul Lail)
27. باب فِي صَلاَةِ اللَّيْلِ
27. باب: تہجد کی رکعتوں کا بیان۔
Chapter: On The Night Prayer.
حدیث نمبر: 1342
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا حفص بن عمر، حدثنا همام، حدثنا قتادة، عن زرارة بن اوفى، عن سعد بن هشام، قال: طلقت امراتي، فاتيت المدينة لابيع عقارا كان لي بها فاشتري به السلاح واغزو، فلقيت نفرا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا: قد اراد نفر منا ستة ان يفعلوا ذلك فنهاهم النبي صلى الله عليه وسلم، وقال:" لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة"، فاتيت ابن عباس فسالته عن وتر النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ادلك على اعلم الناس بوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فات عائشة رضي الله عنها، فاتيتها، فاستتبعت حكيم بن افلح، فابى، فناشدته، فانطلق معي، فاستاذنا على عائشة، فقالت: من هذا؟ قال: حكيم بن افلح، قالت: ومن معك؟ قال: سعد بن هشام، قالت: هشام بن عامر الذي قتل يوم احد؟ قال: قلت: نعم، قالت: نعم المرء كان عامر، قال: قلت:" يا ام المؤمنين، حدثيني عن خلق رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: الست تقرا القرآن؟ فإن خلق رسول الله صلى الله عليه وسلم كان القرآن، قال: قلت: حدثيني عن قيام الليل، قالت: الست تقرا يايها المزمل؟ قال: قلت: بلى، قالت: فإن اول هذه السورة نزلت فقام اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى انتفخت اقدامهم، وحبس خاتمتها في السماء اثني عشر شهرا، ثم نزل آخرها فصار قيام الليل تطوعا بعد فريضة، قال: قلت: حدثيني عن وتر النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: كان يوتر بثمان ركعات لا يجلس إلا في الثامنة، ثم يقوم فيصلي ركعة اخرى لا يجلس إلا في الثامنة والتاسعة، ولا يسلم إلا في التاسعة، ثم يصلي ركعتين وهو جالس، فتلك إحدى عشرة ركعة يا بني، فلما اسن واخذ اللحم اوتر بسبع ركعات لم يجلس إلا في السادسة والسابعة، ولم يسلم إلا في السابعة، ثم يصلي ركعتين وهو جالس فتلك هي تسع ركعات يا بني، ولم يقم رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة يتمها إلى الصباح، ولم يقرا القرآن في ليلة قط ولم يصم شهرا يتمه غير رمضان، وكان إذا صلى صلاة داوم عليها، وكان إذا غلبته عيناه من الليل بنوم صلى من النهار ثنتي عشرة ركعة" قال: فاتيت ابن عباس فحدثته، فقال: هذا والله هو الحديث، ولو كنت اكلمها لاتيتها حتى اشافهها به مشافهة، قال: قلت: لو علمت انك لا تكلمها ما حدثتك.
(مرفوع) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، قَالَ: طَلَّقْتُ امْرَأَتِي، فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ لِأَبِيعَ عَقَارًا كَانَ لِي بِهَا فَأَشْتَرِيَ بِهِ السِّلَاحَ وَأَغْزُو، فَلَقِيتُ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: قَدْ أَرَادَ نَفَرٌ مِنَّا سِتَّةٌ أَنْ يَفْعَلُوا ذَلِكَ فَنَهَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ:" لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ"، فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْ وِتْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَدُلُّكَ عَلَى أَعْلَمِ النَّاسِ بِوِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأْتِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَأَتَيْتُهَا، فَاسْتَتْبَعْتُ حَكِيمَ بْنَ أَفْلَحَ، فَأَبَى، فَنَاشَدْتُهُ، فَانْطَلَقَ مَعِي، فَاسْتَأْذَنَّا عَلَى عَائِشَةَ، فَقَالَتْ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: حَكِيمُ بْنُ أَفْلَحَ، قَالَتْ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَتْ: هِشَامُ بْنُ عَامِرٍ الَّذِي قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَتْ: نِعْمَ الْمَرْءُ كَانَ عَامِرٌ، قَالَ: قُلْتُ:" يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، حَدِّثِينِي عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ فَإِنَّ خُلُقَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ الْقُرْآنَ، قَالَ: قُلْتُ: حَدِّثِينِي عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ، قَالَتْ: أَلَسْتَ تَقْرَأُ يَأَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، قَالَتْ: فَإِنَّ أَوَّلَ هَذِهِ السُّورَةِ نَزَلَتْ فَقَامَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى انْتَفَخَتْ أَقْدَامُهُمْ، وَحُبِسَ خَاتِمَتُهَا فِي السَّمَاءِ اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا، ثُمَّ نَزَلَ آخِرُهَا فَصَارَ قِيَامُ اللَّيْلِ تَطَوُّعًا بَعْدَ فَرِيضَةٍ، قَالَ: قُلْتُ: حَدِّثِينِي عَنْ وِتْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَ يُوتِرُ بِثَمَانِ رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ إِلَّا فِي الثَّامِنَةِ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي رَكْعَةً أُخْرَى لَا يَجْلِسُ إِلَّا فِي الثَّامِنَةِ وَالتَّاسِعَةِ، وَلَا يُسَلِّمُ إِلَّا فِي التَّاسِعَةِ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَتِلْكَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يَا بُنَيَّ، فَلَمَّا أَسَنَّ وَأَخَذَ اللَّحْمَ أَوْتَرَ بِسَبْعِ رَكَعَاتٍ لَمْ يَجْلِسْ إِلَّا فِي السَّادِسَةِ وَالسَّابِعَةِ، وَلَمْ يُسَلِّمْ إِلَّا فِي السَّابِعَةِ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ فَتِلْكَ هِيَ تِسْعُ رَكَعَاتٍ يَا بُنَيَّ، وَلَمْ يَقُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً يُتِمُّهَا إِلَى الصَّبَاحِ، وَلَمْ يَقْرَأْ الْقُرْآنَ فِي لَيْلَةٍ قَطُّ وَلَمْ يَصُمْ شَهْرًا يُتِمُّهُ غَيْرَ رَمَضَانَ، وَكَانَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً دَاوَمَ عَلَيْهَا، وَكَانَ إِذَا غَلَبَتْهُ عَيْنَاهُ مِنَ اللَّيْلِ بِنَوْمٍ صَلَّى مِنَ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً" قَالَ: فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَحَدَّثْتُهُ، فَقَالَ: هَذَا وَاللَّهِ هُوَ الْحَدِيثُ، وَلَوْ كُنْتُ أُكَلِّمُهَا لَأَتَيْتُهَا حَتَّى أُشَافِهَهَا بِهِ مُشَافَهَةً، قَالَ: قُلْتُ: لَوْ عَلِمْتُ أَنَّكَ لَا تُكَلِّمُهَا مَا حَدَّثْتُكَ.
سعد بن ہشام کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، پھر میں مدینہ آیا تاکہ اپنی ایک زمین بیچ دوں اور اس سے ہتھیار خرید لوں اور جہاد کروں، تو میری ملاقات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابہ سے ہوئی، ان لوگوں نے کہا: ہم میں سے چھ افراد نے ایسا ہی کرنے کا ارادہ کیا تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع کیا اور فرمایا: تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے، تو میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں پوچھا، آپ نے کہا: میں ایک ایسی ذات کی جانب تمہاری رہنمائی کرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والی ہے، تم ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ۔ چنانچہ میں ان کے پاس چلا اور حکیم بن افلح سے بھی ساتھ چلنے کو کہا، انہوں نے انکار کیا تو میں نے ان کو قسم دلائی، چنانچہ وہ میرے ساتھ ہو لیے (پھر ہم دونوں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر پہنچے)، ان سے اندر آنے کی اجازت طلب کی، انہوں نے پوچھا: کون ہو؟ کہا: حکیم بن افلح، انہوں نے پوچھا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ کہا: سعد بن ہشام، پوچھا: عامر کے بیٹے ہشام جو جنگ احد میں شہید ہوئے تھے؟ میں نے عرض کیا: ہاں، وہ کہنے لگیں: عامر کیا ہی اچھے آدمی تھے، میں نے عرض کیا: ام المؤمنین مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا حال بیان کیجئے، انہوں نے کہا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن تھا، میں نے عرض کیا: آپ کی رات کی نماز (تہجد) کے بارے میں کچھ بیان کیجئیے، انہوں نے کہا: کیا تم سورۃ «يا أيها المزمل» نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا: جب اس سورۃ کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نماز کے لیے کھڑے ہوئے یہاں تک کہ ان کے پیروں میں ورم آ گیا اور سورۃ کی آخری آیات آسمان میں بارہ ماہ تک رکی رہیں پھر نازل ہوئیں تو رات کی نماز نفل ہو گئی جب کہ وہ پہلے فرض تھی، وہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں بیان کیجئیے، انہوں نے کہا: آپ آٹھ رکعتیں پڑھتے اور آٹھویں رکعت کے بعد پھر کھڑے ہو کر ایک رکعت پڑھتے، اس طرح آپ آٹھویں اور نویں رکعت ہی میں بیٹھتے اور آپ نویں رکعت کے بعد ہی سلام پھیرتے اس کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے، اس طرح یہ کل گیارہ رکعتیں ہوئیں، میرے بیٹے! پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سن رسیدہ ہو گئے اور بدن پر گوشت چڑھ گیا تو سات رکعتوں سے وتر کرنے لگے، اب صرف چھٹی اور ساتویں رکعت کے بعد بیٹھتے اور ساتویں میں سلام پھیرتے پھر بیٹھ کر دو رکعتیں ادا کرتے، اس طرح یہ کل نو رکعتیں ہوتیں، میرے بیٹے! اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی رات کو (لگاتار) صبح تک قیام ۱؎ نہیں کیا، اور نہ ہی کبھی ایک رات میں قرآن ختم کیا، اور نہ ہی رمضان کے علاوہ کبھی مہینہ بھر مکمل روزے رکھے، اور جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نماز پڑھتے تو اس پر مداومت فرماتے، اور جب رات کو آنکھوں میں نیند غالب آ جاتی تو دن میں بارہ رکعتیں ادا فرماتے۔ سعد بن ہشام کہتے ہیں: میں ابن عباس کے پاس آیا اور ان سے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے کہا: قسم اللہ کی! حدیث یہی ہے، اگر میں ان سے بات کرتا تو میں ان کے پاس جا کر خود ان کے ہی منہ سے بالمشافہہ یہ حدیث سنتا، میں نے ان سے کہا: اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ آپ ان سے بات نہیں کرتے ہیں تو میں آپ سے یہ حدیث بیان ہی نہیں کرتا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/المسافرین 18 (746)، سنن النسائی/ قیام اللیل 2 (1602)، 17 (1642)، 18 (1652)، 42 (1721)، 43 (1725)، سنن الترمذی/الصلاة 216 (445مختصراً)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 123 (1191)، (تحفة الأشراف: 16104)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/53، 94، 109، 163، 168، 238، 258) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی رات بھر عبادت نہیں کی بلکہ درمیان میں آرام بھی فرماتے تھے۔

Narrated Saad bin Hisham: I divorced my wife. I then came to Madina to sell my land that was there so that I could buy arms and fight in battle. I met a group of the Companions of the Prophet ﷺ. They said: Six persons of us intended to do so (i. e. divorce their wives and purchase weapons), but the Prophet ﷺ prohibited them. He said: For you in the Messenger of Allah there is an excellent model. I then came to Ibn Abbas and asked him about the witr observed by the Prophet ﷺ. He said: I point to you a person who is most familiar with the witr observed by the Messenger of Allah ﷺ. Go to Aishah. While going to her I asked Hakim bin Aflah to accompany me. He refused, but I adjured him. He, therefore, went along with me. We sought permission to enter upon Aishah. She said: Who is this ? He said: Hakim bin Aflah. She asked: Who is with you ? He replied: Saad bin Hisham. She said: Hisham son of Amir who was killed in the Battle of Uhud. I said: Yes. She said: What a good man Amir was! I said: Mother of faithful, tell me about the character of the Messenger of Allah ﷺ. She asked: Do you not recite the Quran ? The character of Messenger of Allah ﷺ was the Quran. I asked: Tell me about his vigil and prayer at night. She replied: Do you not recite: "O thou folded in garments" (73: 1). I said: Why not ? When the opening of this Surah was revealed, the Companions stood praying (most of the night) until their fett swelled, and the concluding verses were not revealed for twelve months from heaven. At last the concluding verses were revealed and the prayer at night became voluntary after it was obligatory. I said: Tell me about the witr of the Prophet ﷺ. She replied: He used to pray eight rak'ahs, sitting only during the eighth of them. Then he would stand up and pray another rak'ahs. He would sit only after the eighth and the ninth rak'ahs. He would utter salutation only after the ninth rak'ah. He would then pray two rak'ahs sitting and that made eleven rak'ahs, O my son. But when he grew old and became fleshy he observed a witr of seven, sitting only in sixth and seventh rak'ahs, and would utter salutation only after the seventh rak'ah. He would then pray two rak'ahs sitting, and that made nine rak'ahs, O my son. The Messenger of Allah ﷺ would not pray through a whole night, or recite the whole Quran in a night or fast a complete month except in Ramadan. When he offered prayer, he would do that regularly. When he was overtaken by sleep at night, he would pray twelve rak'ahs. The narrator said: I came to Ibn Abbas and narrated all this to him. By Allah, this is really a tradition. Has I been on speaking terms with her, I would have come to her and heard it from her mouth. I said: If I knew that you were not on speaking terms with her, I would have never narrated it to you.
USC-MSA web (English) Reference: Book 5 , Number 1337


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (746)

   سنن النسائى الصغرى1602عائشة بنت عبد اللهخلق نبي الله القرآن
   سنن أبي داود1342عائشة بنت عبد اللهخلق رسول الله قالت ألست تقرأ القرآن فإن خلق رسول الله كان القرآن حدثيني عن قيام الليل قالت ألست تقرأ يأيها المزمل
   سنن ابن ماجه2333عائشة بنت عبد اللهأو ما تقرأ القرآن وإنك لعلى خلق عظيم قالت كان رسول الله مع أصحابه فصنعت له طعاما وصنعت له حفصة طعاما قالت فسبقتني حفصة فقلت للجارية انطلقي فأكفئي قصعتها فلحقتها وقد همت أن تضع بين يدي رسول الله فأكفأتها فانكسرت القصع
   المعجم الصغير للطبراني311عائشة بنت عبد الله لا يسلم فى ركعتي الوتر
   المعجم الصغير للطبراني330عائشة بنت عبد الله كان قيام رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فريضة حين أنزل الله عز وجل يأيها المزمل { 1 } قم الليل إلا قليلا { 2 } سورة المزمل آية 1-2 ، فكان أول فريضة ، فكانوا يقومون حتى تتفطر أقدامهم ، وحبس الله عز وجل آخر السورة عنهم حولا ، ثم أنزل علم أن لن تحصوه فتاب عليكم فاقرءوا ما تيسر من القرءان سورة المزمل آية 20 ، فصار قيام الليل تطوعا
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1342 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1342  
1342. اردو حاشیہ: فوائد و مسائل:
➊ جناب سعد بن ہشام جیسا انداز فکر و علم کہ انسان نفس ودنیا کی لذتوں سے بالکل ہی منقطع ہو جائے، اسوۂ رسول ﷺ اور عمل صحابہ کے خلاف ہے۔
➋ تحقیق مسائل میں سائل کو افضل واعلیٰ علمی شخصیت کی طرف تحویل (Refer) كرنا آداب علمی کا حصہ ہے۔
➌ رات کی نماز کے کئی نام ہیں۔ قیام اللیل، تہجد او روتر۔ رمضان کی مناسبت سے تراویح کا لفظ بعد کے زمانے میں مروج ہوا ہے۔
➍ رسو ل اللہﷺ کا خلق قرآن تھا، یعنی آپ اس کے اوامر و نواہی اور دیگر آداب کے مجسم نمونہ تھے۔
➎ تہجد اوروتر پڑھنے کے تقریباً تیرہ طریقے ہیں۔ دیکھئے [محلی:2/8
➋ 91/مسئلہ:29]

اور ان میں کوئی تعارض نہیں۔
➏ نورکعت مسلسل کی نیت باندھنا بالکل جائز اور سنت ہے۔ اس صورت میں آٹھویں رکعت پر تشہد پڑھ کر نویں رکعت پڑھی جائے او رپھر سلام پھیرا جائے۔ سات رکعت کی نیت ہو تو چھٹی پر تشہد کے لیے میٹھے اور ساتویں پر سلام پھیرے۔ تین اور پانچ رکعتوں میں صرف ایک آخری تشہد ہوتا ہے۔
➐ وتروں کے بعد کبھی کبھی دورکعت بھی مستحب ہیں۔
➑ تہجد قضا ہو جائے تو فجر کی نماز سے پہلے یا بعد وتر ادا کرلے۔ یا پھر دن میں بارہ رکعت پڑھ لی جائیں۔
➒ حضرت ابن عباس کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مابین ظاہر ہوئے تھے۔ واللہ اعلم، تاہم اس کے باوجود اعزاز شخصی اور جلالت علمی کا کامل اعتراف و اقرار ملحوظ خاطر تھا۔ رضي اللہ عنهم و أرضاهم
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1342   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1602  
´قیام اللیل (تہجد) کا بیان۔`
سعد بن ہشام سے روایت ہے کہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہم سے ملے تو ان سے وتر کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا: کیا میں تمہیں اہل زمین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ سعد نے کہا: کیوں نہیں (ضرور بتائیے) تو انہوں نے کہا: وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں، ان کے پاس جاؤ، اور ان سے سوال کرو، پھر میرے پاس لوٹ کر آؤ، اور وہ تمہیں جو جواب دیں اسے مجھے بتاؤ، چنانچہ میں حکیم بن افلح کے پاس آیا، اور ان سے میں نے اپنے ساتھ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے چلنے کے لیے کہا، تو انہوں نے انکار کیا، اور کہنے لگے: میں ان سے نہیں مل سکتا، میں نے انہیں ان دو گروہوں ۱؎ کے متعلق کچھ بولنے سے منع کیا تھا، مگر وہ بولے بغیر نہ رہیں، تو میں نے حکیم بن افلح کو قسم دلائی، تو وہ میرے ساتھ آئے، چنانچہ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہوئے، تو انہوں نے حکیم سے کہا: تمہارے ساتھ یہ کون ہیں؟ میں نے کہا: سعد بن ہشام ہیں، تو انہوں نے کہا: کون ہشام؟ میں نے کہا: عامر کے لڑکے، تو انہوں نے ان (عامر) کے لیے رحم کی دعا کی، اور کہا: عامر کتنے اچھے آدمی تھے۔ سعد نے کہا: ام المؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے کہا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور پڑھتا ہوں، تو انہوں نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سراپا قرآن تھے، پھر میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کے متعلق پوچھنے کا خیال آیا، تو میں نے کہا: ام المؤمنین! مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کے متعلق بتائیے، انہوں نے کہا: کیا تم سورۃ «يا أيها المزمل‏» نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور پڑھتا ہوں، تو انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کے شروع میں قیام اللیل کو فرض قرار دیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ایک سال تک قیام کیا یہاں تک کہ ان کے قدم سوج گئے، اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کی آخر کی آیتوں کو بارہ مہینے تک روکے رکھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کے آخر میں تخفیف نازل فرمائی، اور رات کا قیام اس کے بعد کہ وہ فرض تھا نفل ہو گیا، میں نے پھر اٹھنے کا ارادہ کیا، تو میرے دل میں یہ بات آئی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے متعلق بھی پوچھ لوں، تو میں نے کہا: ام المؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں بھی بتائیے تو انہوں نے کہا: ہم آپ کے لیے مسواک اور وضو کا پانی رکھ دیتے، تو اللہ تعالیٰ رات میں آپ کو جب اٹھانا چاہتا اٹھا دیتا تو آپ مسواک کرتے، اور وضو کرتے، اور آٹھ رکعتیں پڑھتے ۲؎ جن میں آپ صرف آٹھویں رکعت میں بیٹھتے، ذکر الٰہی کرتے، دعا کرتے، پھر سلام پھیرتے جو ہمیں سنائی دیتا، پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے، پھر ایک رکعت پڑھتے تو اس طرح کل گیارہ رکعتیں ہوئیں۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوڑھے ہو گئے، اور جسم پر گوشت چڑھ گیا تو وتر کی سات رکعتیں پڑھنے لگے، اور سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے، تو میرے بیٹے! اس طرح کل نو رکعتیں ہوئیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز پڑھتے تو آپ کو یہ پسند ہوتا کہ اس پر مداومت کریں، اور جب آپ نیند، بیماری یا کسی تکلیف کی وجہ سے رات کا قیام نہیں کر پاتے تو آپ (اس کے بدلہ میں) دن میں بارہ رکعتیں پڑھتے تھے، اور میں نہیں جانتی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا قرآن ایک رات میں پڑھا ہو، اور نہ ہی آپ پوری رات صبح تک قیام ہی کرتے، اور نہ ہی کسی مہینے کے پورے روزے رکھتے، سوائے رمضان کے، پھر میں ابن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس آیا، اور میں نے ان سے ان کی یہ حدیث بیان کی، تو انہوں نے کہا: عائشہ رضی اللہ عنہا نے سچ کہا، رہا میں تو اگر میں ان کے یہاں جاتا ہوتا تو میں ان کے پاس ضرور جاتا یہاں تک کہ وہ مجھ سے براہ راست بالمشافہ یہ حدیث بیان کرتیں۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: اسی طرح میری کتاب میں ہے، اور میں نہیں جانتا کہ کس شخص سے آپ کی وتر کی جگہ کے بارے میں غلطی ہوئی ہے ۳؎۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1602]
1602۔ اردو حاشیہ:
➊ امام نسائی رحمہ اللہ کے اس فرمان میں اشارہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گیارہ رکعت وتر کے بیان میں کسی راوی سے خطا ہو گئی ہے کیونکہ یہاں دو رکعتوں کو ایک رکعت سے مقدم بیان کیا گیا ہے، حالانکہ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق صحیح یہ ہے کہ آپ نو رکعتیں اس طرح پڑھتے کہ صرف آٹھویں رکعت پر بیٹھتے، پھر اللہ تعالیٰ کا ذکر فرماتے اور دعائیں کرتے، پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہو جاتے اور نویں رکعت پڑھ کر بیٹھ جاتے اور ذکروددعا وغیرہ کے بعد آواز کے ساتھ سلام پھیرتے کہ ہمیں سنائی دیتا، پھر سلام کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے۔ اس طرح یہ گیارہ رکعتیں ہو گئیں۔ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 746) کسی راوی سے تقدیم و تاخیر ہو گئی۔ آگے نو رکعت وتر کے بیان سے بھی اس غلطی کی نشان دہی ہوتی ہے کیونکہ وہاں مسلم کی روایت کی طرح دو رکعتوں کو ایک رکعت سے مؤخر بتایا گیا ہے اور یہی صحیح ہے۔
عین قرآن کے مطابق تھے۔ یعنی قرآن مجید میں جو اخلاق عالیہ فاضلہ تمام انبیاء و صلحا کے بیان کیے گئے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں وہ سب بدرجۂ اتم پائے جاتے تھے اور جن چیزوں سے قرآن مجید میں روکا گیا ہے، ان کی گرد بھی آپ کو نہیں پہنچتی تھی۔
➌ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیان کے مطابق ایک سال کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی قیام اللیل کی فرضیت ساقط ہو گئی تھی، مگر قرآن مجید کے الفاظ میں دو امکان ہیں، ایک یہ کہ قیام اللیل صرف صحابہ سے ساقط کیا گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بدستور فرض رہا لیکن یہ مؤقف درست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض سفروں میں تہجد پڑھنا ثابت نہیں جیسا کہ ایک دفعہ سفر میں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بھی سوئے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی، کسی کو جاگ نہ آئی، تہجد بروقت پڑھنا تو کجا، نمازفجر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج چڑھے پڑھی، اسی طرح مزدلفہ کی رات بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تہجد پڑھنا منقول نہیں۔ اس سے تہجد کی فرضیت کے قائلین کا مؤقف مل نظر ٹھہرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ فرضیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ساقط کر دی گئی، جیسا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے۔ واللہ اعلم۔
➍ قیام اللیل اور نماز وتر کوئی الگ الگ نمازیں نہیں بلکہ ایک ہی نماز کو وقت کی نسبت سے قیام اللیل کہا گیا اور رکعات کی تعداد کی نسبت سے وتر کہا گیا ہے۔ رمضان المبارک میں اسی کو تراویح اور عام دنوں میں اسی کو تہجد کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ عام دنوں میں یہ نماز سونے کے بعد اٹھ کر پڑھی جاتی ہے اور تہجد کے معنی بھی نیند سے اٹھنا ہیں۔ تراویح اس کو پڑھنے کی کیفیت کے لحاظ سے کہا جاتا ہے، یعنی وقفے وقفے سے آرام کر کے پڑھنا۔ تراوی میں ہر چار رکعت کے بعد کافی وقفہ کیا جاتا ہے۔ اگرچہ آج کل یہ وقفہ تقریباً متروک ہو چکا ہے اور یہ ضروری بھی نہیں۔
➎ رات کو جو نفل نماز بھی پڑھی جائے گی، اس کی تعداد طاق ہونی چاہیے، پھر ان سب کو وتر ہی کہا جائے گا، البتہ اگر دن کو قضا کرنی ہو تو طاق کے بجائے جفت پڑھی جائے گی کیونکہ طاق نفل نماز رات کے ساتھ خاص ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دن کو گیارہ کے بجائے بارہ رکعت پڑھنا صریح دلیل ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وتر نفل ہیں، فرض نہیں، نیز نفل کی بھی قضادی جا سکتی ہے۔
مجھے علم نہیں مقصود یہ ہے کہ عبادت کے ساتھ ساتھ اپنے جسم اور اس کے آرام و صحت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے، ورنہ جسم عاجز آجائے گا، پھر نفل تو ایک طرف رہے فرض رہ جانے کی نوبت بھی آسکتی ہے۔
اگر میں ان کے پاس جاتا ہوتا دراصل اس وقت غلط فہمی کی وجہ سے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہن میں سیاسی اختلافات پیدا ہوچکے تھے جس نے ان کو ایک دوسرے سے دور کر دیا تھا۔ جنگ جمل اور جنگ صفین اسی دور کی تلخ یادیں ہیں۔ حضرت عائشہ، حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کے درمیان بھی ان اختلافات کی وجہ سے باہم شکر رنجی تھی، البتہ وہ سب نیک نیت تھے۔ رضوان اللہ علیہم اجمعین۔
➑ سلف صالحین ہر کام میں اسوۂ رسول تلاش کرتے تھے کہ ان کی اقتدا کریں۔ اس مقصد کے لیے وہ وقت بھی دیتے تھے اور علماء سے استفسار بھی کرتے اور اگر سفر کی ضرورت پیش آتی تو سفر بھی کرتے۔ رحمہ اللہ۔
➒ جس سے سوال پوچھا: جا رہا ہے اگر اس سے بڑا عالم موجود ہے تو اسے چاہیے کہ سائل کی اس کی طرف رہنمائی کرے کیونکہ دین خیرخواہی کا نام ہے۔
➓ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے کہ وہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے بارے میں زیادہ جانتی تھیں۔ (11)محبوب ترین عمل وہ ہے جس پر آدمی ہمیشگی کرے اگرچہ وہ کم ہی ہو۔ (12)ساری ساری رات عبادت میں گزار دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہیں بلکہ اپنی آنکھوں، جسم اور اہل عیال کا بھی انسان پر حق ہے، البتہ کبھی کبھار یہ جائز ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1602   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.