(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن ابن جريج، حدثني عطاء، عن عبيد بن عمير، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم" لم يكن على شيء من النوافل اشد معاهدة منه على الركعتين قبل الصبح". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، حَدَّثَنِي عَطَاءٌ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" لَمْ يَكُنْ عَلَى شَيْءٍ مِنَ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مُعَاهَدَةً مِنْهُ عَلَى الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الصُّبْحِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی اور نفل کا اتنا خیال نہیں رکھتے تھے جتنا صبح سے پہلے کی دونوں کی رکعتوں کا رکھتے تھے۔
Narrated Aishah: The Messenger of Allah ﷺ was more particular about observing the supererogatory rak'ahs before the dawn prayer than about observing any of the other supererogatory prayers.
USC-MSA web (English) Reference: Book 5 , Number 1249
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1169) صحيح مسلم (724)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1254
1254۔ اردو حاشیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی سنتیں سفر میں بھی ترک نہیں فرماتے تھے، اس لیے بعض محدثین مثلاًً حسن بصری رحمہ اللہ انہیں واجب کہتے ہیں، ایسے ہی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بھی۔ اس سے واضح ہوا کہ دوسری سنتوں کے مقابلے میں فجر کی ان دو سنتوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1254
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 283
´نفل نماز کا بیان` سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے یہ روایت بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نوافل میں سے سب سے زیادہ اہتمام فجر کی دو سنتوں کا رکھتے تھے۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم میں ہے کہ نماز فجر کی دو (رکعتیں)(سنتیں) «دنيا وما فيها» سے بہتر ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 283»
تخریج: «أخرجه البخاري، التهجد، باب تعاهد ركعتي الفجر، حديث:1169، ومسلم، صلاة المسافرين، باب استحباب ركعتي سنة الفجر، حديث:724، وحديث "ركعتا الفجر خير من الدنيا وما فيها" أخرجه مسلم، صلاة المسافرين، حديث:725.»
تشریح: 1. اس میں شک کی ذرہ برابر گنجائش نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سنن رواتب میں سے فجر کی دو سنتوں کا جتنا التزام فرمایا اتنا دوسری سنتوں کا اہتمام نہیں کیا حتی کہ سفر و حضر میں بھی انھیں کبھی نہیں چھوڑا۔ ان دو سنتوں کی اتنی تاکید کے پیش نظر احناف نے تو جماعت کھڑی ہو جانے کے باوجود ان کو فرضوں سے پہلے پڑھنا لازمی قرار دے رکھا ہے‘ حالانکہ یہ صراحتاً حدیث کے خلاف ہے کیونکہ فرض جماعت کے ہوتے ہوئے دوسری کوئی نماز پڑھنا درست نہیں‘ چنانچہ آپ کا فرمان ہے: «إِذَا أُقِیمَتِ الصَّلاَۃُ فَلَا صَلَاۃَ إِلاَّ الْمَکْتُوبَۃَ»”جب (نماز کے لیے) اقامت ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ اور کوئی نماز نہیں ہوتی۔ “(صحیح مسلم‘ صلاۃ المسافرین‘ باب کراھۃ الشروع في نافلۃ…‘ حدیث:۷۱۰) 2.بیہقی کی وہ روایت کہ جب جماعت کھڑی ہو جائے تو کوئی نماز نہیں سوائے فرض نماز کے الا یہ کہ صبح کی سنتیں ہوں‘ بالکل بے اصل اور ضعیف ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (عون المعبود)
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 283
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1687
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو کسی نفل کے لیے بھی اس قدر سرعت و جلدی کرتے نہیں دیکھا، جس قدر سرعت آپﷺ فجر کی نماز سے پہلے کی دو رکعتوں کے لیے کرتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1687]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: صبح سنتوں کے لیے جلدی کرنا ان کے اہتمام اور محافظت سے کنایہ ہے اور اس طرف اشارہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کا التزام فرماتے تھے کہ ان کو صبح کی نماز سے پہلے ہی پڑھا جائے۔ نماز فجر کے بعد ان کی قضائی کی ضرورت نہ پیش آئے۔ لیکن آج ہم ان سنتوں کا اس قدر اہتمام نہیں کرتے اس لیے بہت سے لوگ نماز فجر کے بعد ان کو پڑھتے ہیں جو ان کا اصل وقت نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1687
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1169
1169. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نوافل میں سے کسی کا اس قدر اہتمام نہیں کرتے تھے جتنا فجر کی دو سنتوں کا اہتمام کرتے تھے، یعنی دوسرے نوافل کی نسبت فجر کی سنتوں کو زیادہ پابندی سے ادا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1169]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فجر کی سنتوں کو بھی لفظ نفل ہی سے ذکر فرمایا۔ پس باب اور حدیث میں مطابقت ہو گئی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے ان سنتوں پر مداومت فرمائی ہے۔ لہٰذا سفر وحضر کہیں بھی ان کا ترک کرنا اچھا نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1169
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1169
1169. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نوافل میں سے کسی کا اس قدر اہتمام نہیں کرتے تھے جتنا فجر کی دو سنتوں کا اہتمام کرتے تھے، یعنی دوسرے نوافل کی نسبت فجر کی سنتوں کو زیادہ پابندی سے ادا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1169]
حدیث حاشیہ: (1) حدیث میں فجر کی دو سنتوں کو نوافل قرار دیا گیا ہے لیکن رسول اللہ ﷺ ان کی بہت حفاظت فرماتے تھے حتی کہ آپ نے سفر میں بھی انہیں ترک نہیں کیا۔ بعض حضرات نے انہیں تطوع کا نام دیا ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن شقیق نے حضرت عائشہ ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی نماز تطوع (نفلی نماز) کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب میں فجر کی دو سنتوں کو بھی بیان فرمایا، نیز ابن جریج نے حضرت عطاء سے سوال کیا کہ فجر کی دو سنت واجب ہیں یا ان کا تعلق نماز تطوع سے ہے؟ تو انہوں نے مذکورہ حدیث بیان کی، یعنی تطوع ہونے کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے ان پر ہمیشگی فرمائی اور ان کی حفاظت کی ہے۔ (فتح الباري: 58/3)(2) رسول اللہ ﷺ کی ان کے متعلق شدید پابندی کے پیش نظر امام حسن بصری ؒ نے انہیں واجب کہا ہے، جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں اس کی صراحت ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ سے بھی ان کے واجب ہونے کی ایک روایت ملتی ہے۔ حسن بن زیاد نے ان سے نقل کیا ہے کہ اگر عذر کے بغیر انہیں کوئی بیٹھ کر ادا کرتا ہے تو جائز نہیں۔ (فتح الباري: 56/3) بہرحال فجر کی دو سنت ادا کرنے کے متعلق احادیث میں بہت تاکید ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1169