(مرفوع) حدثنا سعيد بن منصور، حدثنا شهاب بن خراش، حدثني شعيب بن زريق الطائفي، قال: جلست إلى رجل له صحبة من رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقال له: الحكم بن حزن الكلفي فانشا، يحدثنا، قال: وفدت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم سابع سبعة، او تاسع تسعة، فدخلنا عليه، فقلنا: يا رسول الله، زرناك فادع الله لنا بخير، فامر بنا، او امر لنا بشيء من التمر والشان إذ ذاك دون فاقمنا بها اياما شهدنا فيها الجمعة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم" فقام متوكئا على عصا او قوس، فحمد الله واثنى عليه كلمات خفيفات طيبات مباركات، ثم قال: ايها الناس، إنكم لن تطيقوا او لن تفعلوا كل ما امرتم به ولكن سددوا وابشروا". قال ابو علي: سمعت ابو داود، قال: ثبتني في شيء منه بعض اصحابنا وقد كان انقطع من القرطاس. (مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا شِهَابُ بْنُ خِرَاشٍ، حَدَّثَنِي شُعَيْبُ بْنُ زُرَيْقٍ الطَّائِفِيُّ، قَالَ: جَلَسْتُ إِلَى رَجُلٍ لَهُ صُحْبَةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُقَالُ لَهُ: الْحَكَمُ بْنُ حَزْنٍ الْكُلَفِيُّ فَأَنْشَأَ، يُحَدِّثُنَا، قَالَ: وَفَدْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَابِعَ سَبْعَةٍ، أَوْ تَاسِعَ تِسْعَةٍ، فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، زُرْنَاكَ فَادْعُ اللَّهَ لَنَا بِخَيْرٍ، فَأَمَرَ بِنَا، أَوْ أَمَرَ لَنَا بِشَيْءٍ مِنَ التَّمْرِ وَالشَّأْنُ إِذْ ذَاكَ دُونٌ فَأَقَمْنَا بِهَا أَيَّامًا شَهِدْنَا فِيهَا الْجُمُعَةَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" فَقَامَ مُتَوَكِّئًا عَلَى عَصًا أَوْ قَوْسٍ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ كَلِمَاتٍ خَفِيفَاتٍ طَيِّبَاتٍ مُبَارَكَاتٍ، ثُمَّ قَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ لَنْ تُطِيقُوا أَوْ لَنْ تَفْعَلُوا كُلَّ مَا أُمِرْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ سَدِّدُوا وَأَبْشِرُوا". قَالَ أَبُو عَلِيٍّ: سَمِعْت أَبُو دَاوُد، قَالَ: ثَبَّتَنِي فِي شَيْءٍ مِنْهُ بَعْضُ أَصْحَابِنَا وَقَدْ كَانَ انْقَطَعَ مِنَ الْقِرْطَاسِ.
شہاب بن خراش کہتے ہیں کہ شعیب بن زریق طائفی نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ میں ایک شخص کے پاس (جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شرف صحبت حاصل تھا، اور جسے حکم بن حزن کلفی کہا جاتا تھا) بیٹھا تو وہ ہم سے بیان کرنے لگا کہ میں ایک وفد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میں اس وفد کا ساتواں یا نواں آدمی تھا، ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے آپ کی زیارت کی ہے تو آپ ہمارے لیے خیر و بہتری کی دعا فرما دیجئیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ کھجوریں ہم کو دینے کا حکم دیا اور حالت اس وقت ناگفتہ بہ تھی، پھر ہم وہاں کچھ روز ٹھہرے رہے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ میں بھی حاضر رہے، آپ ایک عصا یا کمان پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے چند ہلکے، پاکیزہ اور مبارک کلمات کے ذریعہ اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: ”لوگو! تم سارے احکام کو جن کا تمہیں حکم دیا جائے بجا لانے کی ہرگز طاقت نہیں رکھتے یا تم نہیں بجا لا سکتے، لیکن درستی پر قائم رہو اور خوش ہو جاؤ“۔ ابوعلی کہتے ہیں کہ میں نے ابوداؤد کو کہتے ہوئے سنا کہ ہمارے بعض ساتھیوں نے کچھ کلمات مجھے ایسے لکھوائے جو کاغذ سے کٹ گئے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابوداود، (تحفة الأشراف: 3419)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/212) (حسن)»
Shuayb ibn Zurayq at-Taifi said: I sat with a man who had been in the company of the Messenger of Allah ﷺ. He was called al-Hakam ibn Hazn al-Kulafi. He began to narrate a tradition to us saying: I came to the Messenger of Allah ﷺ in a delegation consisting of seven or nine persons. We entered upon him and said: Messenger of Allah, we have visited you, so pray Allah what is good for us. He ordered to give us some dates. The Muslims in those days were weak. We stayed there for several days and offered the Friday prayer along with the Messenger of Allah ﷺ. He stood leaning on a staff or a bow. He praised Allah and exalted Him in light, pure and blessed words. Then he said: O people, you have no power to obey or you cannot obey what you are ordered. But be straight and give good tidings. Abu Ali said: Did you hear Abu Dawud ? He said: Some of my companions reminded me of some words that were omitted from writing on the paper.
USC-MSA web (English) Reference: Book 3 , Number 1091
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (1444) صححه ابن خزيمة (1452 وسنده حسن) وانظر الحديث الآتي (1145)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1096
1096۔ اردو حاشیہ: ➊ متبع سنت علماء صلحاء اور باعمل لوگوں سے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے محبت کرنا نہایت قابل قدر او بلندی درجات کا حامل عمل ہے۔ ایسے لوگوں سے خود باری تعالیٰ محبت کرتا ہے۔ اور روز قیامت ایسے لوگوں کو اللہ عزوجل کا خصوصی سایہ میسر ہو گا۔ «اللهم اجعلنا منهم» آمین۔ [صحيح مسلم، حديث: 256 ➏ 2527] ➋ اصحاب خیر کی زیارت میسر آئے تو ان سے دعائے خیر کرانی چاہیے یہ مستحب عمل ہے۔ ➌ حسب حال مہمانوں کی عمدہ خدمت ان کا حق ہے۔ ➍ خطبہ میں عصاء وغیرہ لے کر کھڑے ہونا مستحب ہے۔ ➎ عام انسانوں کے لئے ناممکن ہے کہ شریعت کے تمام تر احکام پر عمل پیرا ہو سکیں لیکن حسب امکان غفلت و کسل مندی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اعمال صالحہ پر استقامت اور میانہ روی کو معمول بنانا ضرور ی ہے۔ ➏ محدثین اپنی شخصی فروگزاشتیں بھی بیان کر دیا کرتے تھے تاکہ لوگ انہیں معصوم نہ سمجھنے لگیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1096
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 378
´نماز جمعہ کا بیان` سیدنا حکم بن حزن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ میں حاضر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لاٹھی یا کمان کا سہارا لے کر کھڑے ہوئے۔ (ابوداؤد) «بلوغ المرام/حدیث: 378»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب الرجل يخطب علي قوس، حديث:1096.»
تشریح: 1. اس حدیث کی رو سے خطیب خطبۂجمعہ کے وقت کسی چیز کا سہارا لے سکتا ہے۔ 2.یہ مستحب ہے۔ 3. حکمت اس کی یہ ہے کہ یہ چیز خطیب کے لیے ڈھارس کا کام دیتی ہے‘ ہاتھ بے فائدہ حرکت کرنے سے بچے رہتے ہیں اور آدمی میں تھکاوٹ کا احساس بھی پیدا نہیں ہوتا۔
راویٔ حدیث: «حضرت حکم بن حزن رضی اللہ عنہ» حکم میں ”حا“ اور ”کاف“ دونوں پر فتحہ ہے۔ اور حزن کی ”حا“ پر فتحہ اور ”زا“ ساکن ہے۔ ان کا پورا نام حکم بن حزن بن ابی وہب مخزومی ہے۔ ان کے اسلام کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ جنگ یمامہ سے پہلے اسلام قبول کیا‘ حالانکہ صحیح یہ ہے کہ انھوں نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا تھا۔ اس حدیث سے معلوم ہو رہا ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز جمعہ ادا کی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 378