(مرفوع) حدثنا يعقوب بن كعب الانطاكي، حدثنا مخلد بن يزيد، حدثنا ابن جريج، عن عطاء، عن جابر، قال: لما استوى رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الجمعة، قال:" اجلسوا" فسمع ذلك ابن مسعود فجلس على باب المسجد، فرآه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" تعال يا عبد الله بن مسعود". قال ابو داود: هذا يعرف مرسلا، إنما رواه الناس، عن عطاء، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ومخلد هو شيخ. (مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ كَعْبٍ الْأَنْطَاكِيُّ، حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: لَمَّا اسْتَوَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، قَالَ:" اجْلِسُوا" فَسَمِعَ ذَلِكَ ابْنُ مَسْعُودٍ فَجَلَسَ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" تَعَالَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ". قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا يُعْرَفُ مُرْسَلًا، إِنَّمَا رَوَاهُ النَّاسُ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَخْلَدٌ هُوَ شَيْخٌ.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن جب منبر پر اچھی طرح سے بیٹھ گئے تو آپ نے لوگوں سے فرمایا: ”بیٹھ جاؤ“، تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے (جو اس وقت مسجد کے دروازے پر تھے) اسے سنا تو وہ مسجد کے دروازے ہی پر بیٹھ گئے، تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا: ”عبداللہ بن مسعود! تم آ جاؤ“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث مرسلاً معروف ہے کیونکہ اسے لوگوں نے عطاء سے، عطاء نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، اور مخلد شیخ ہیں، (یعنی مراتب تعدیل کے پانچویں درجہ پر ہیں جن کی روایتیں ”حسن“ سے نیچے ہی ہوتی ہیں، الا یہ کہ ان کا کوئی متابع موافق ہو)
Jabir said: When the Messenger of Allah ﷺ seated himself on the pulpit on a Friday he said, Sit down. Ibn Masud heard that and sat down at the door of mosque, and when the Messenger of Allah ﷺ saw him, he said: Come here, Abdullah bin Masud. Abu Dawud said: This tradition is known as mursal (the successor reports directly from the Prophet, omitting then name of the Companion). The people narrated it from the Prophet ﷺ on the authority of Ata. Makhlad is his teacher.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 1086
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (1418) أخرجه الحاكم (1/283، 284 وسنده قوي) ابن جريج عن عطاء بن أبي رباح محمولة علي السماع
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1091
1091۔ اردو حاشیہ: ➊ خطیب کو حق حاصل ہے کہ سامعین سے حسب ضرورت کوئی بات کر سکتا ہے اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تعمیل ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت دیکھیے کہ حکم سنتے ہی بیٹھ گئے اور قدم تک نہیں بڑھایا۔ اس قسم کے لوگوں پر زبان طعن دراز کرنا کہ یہ لوگ بعد از وفات نبی صلی اللہ علیہ وسلم (نعوذ باللہ) مرتد ہو گئے تھے یا منافق بن گئے تھے اپنے خبث باطن کے اظہار کے علاوہ کچھ نہیں۔ ➋ احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خطبے کے دوران سامعین کو آپس میں گفتگو کرنے کی اجازت نہیں ہے، مگر خطیب بات کر سکتا ہے۔ ➌ یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی فوراً بلاتاخیر تعمیل ضروری ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1091