سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
ابواب: جمعہ المبارک کے احکام ومسائل
Prayer (Tafarah Abwab ul Jummah)
214. باب مَنْ تَجِبُ عَلَيْهِ الْجُمُعَةُ
214. باب: کن لوگوں پر جمعہ واجب ہے؟
Chapter: Who Is required To Attend The Firday Prayer?
حدیث نمبر: 1055
Save to word اعراب English
(موقوف) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا ابن وهب، اخبرني عمرو، عن عبيد الله بن ابي جعفر، ان محمد بن جعفر حدثه، عن عروة بن الزبير، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، انها قالت: كان الناس ينتابون الجمعة من منازلهم، ومن العوالي.
(موقوف) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرٍ حَدَّثَهُ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ النَّاسُ يَنْتَابُونَ الْجُمُعَةَ مِنْ مَنَازِلِهِمْ، وَمِنَ الْعَوَالِي.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ لوگ جمعہ کے لیے اپنے اپنے گھروں سے اور عوالی ۱؎ سے باربار آتے تھے۔

وضاحت:
۱؎: عوالی مدینہ منورہ میں قباء سے متصل علاقہ ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الجمعة 15 (902)، والبیوع 15 (2017)، صحیح مسلم/الجمعة 1 (847)، (تحفة الأشراف: 16383)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الجمعة 9 (1380) (صحیح)» ‏‏‏‏

Aishah, the wife of Prophet ﷺ, said: The people used to attend the Friday prayer from their houses and from the suburbs of Madina.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 1050


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (902) صحيح مسلم (847)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1055 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1055  
1055۔ اردو حاشیہ:
«عوالي» کی آبادیاں مدینہ منورہ سے تین سو آٹھ میل کی مسافت تک تھیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شہر کے ساتھ ملحق بستیوں والوں پر جمعہ واجب ہے، اور انہیں جمعے میں حاضر ہونا چاہیے۔
➋ اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ جمعے میں اجتماعیت مطلوب ہے۔ لہٰذا جہاں تک ہو سکے مسلمانوں کو اس ہفت روزہ اجتماع میں اپنی اجتماعیت اور وحدت کا اظہار کرنا چاہیے۔ ایک شہر میں مختلف مساجد میں جمعے کا قیام فقہی یا فتویٰ کے لحاظ سے بلاشبہ جائز ہے۔ مگر خیرالقرون میں اس قدر بھی تفرق و تشنت نہ تھا جو آج ہر گلی کوچے میں نظر آتا ہے۔ تفصیلی بحث کے لئے دیکھیے: [نيل الأوطار، السيل الجرار للشوكاني: 303/1]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1055   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.