(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث يعني ابن سعد، عن يزيد بن ابي حبيب، ان سويد بن قيس اخبره، عن معاوية بن حديج، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" صلى يوما فسلم، وقد بقيت من الصلاة ركعة" فادركه رجل، فقال: نسيت من الصلاة ركعة،" فرجع، فدخل المسجد وامر بلالا، فاقام الصلاة، فصلى للناس ركعة" فاخبرت بذلك الناس، فقالوا لي: اتعرف الرجل؟ قلت: لا، إلا ان اراه، فمر بي، فقلت: هذا هو، فقالوا: هذا طلحة بن عبيد الله. (مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، أَنَّ سُوَيْدَ بْنَ قَيْسٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ حُدَيْجٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" صَلَّى يَوْمًا فَسَلَّمَ، وَقَدْ بَقِيَتْ مِنَ الصَّلَاةِ رَكْعَةٌ" فَأَدْرَكَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: نَسِيتَ مِنَ الصَّلَاةِ رَكْعَةً،" فَرَجَعَ، فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ وَأَمَرَ بِلَالًا، فَأَقَامَ الصَّلَاةَ، فَصَلَّى لِلنَّاسِ رَكْعَةً" فَأَخْبَرْتُ بِذَلِكَ النَّاسَ، فَقَالُوا لِي: أَتَعْرِفُ الرَّجُلَ؟ قُلْتُ: لَا، إِلَّا أَنْ أَرَاهُ، فَمَرَّ بِي، فَقُلْتُ: هَذَا هُوَ، فَقَالُوا: هَذَا طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ.
معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز پڑھائی تو سلام پھیر دیا حالانکہ ایک رکعت نماز باقی رہ گئی تھی، ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: آپ نماز میں ایک رکعت بھول گئے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے، مسجد کے اندر آئے اور بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے نماز کی اقامت کہی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ایک رکعت پڑھائی، میں نے لوگوں کو اس کی خبر دی تو لوگوں نے مجھ سے پوچھا: کیا تم اس شخص کو جانتے ہو؟ میں نے کہا: نہیں، البتہ اگر میں دیکھوں (تو پہچان لوں گا)، پھر وہی شخص میرے سامنے سے گزرا تو میں نے کہا: یہی وہ شخص تھا، لوگوں نے کہا: یہ طلحہ بن عبیداللہ ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الأذان 24 (665)، (تحفة الأشراف: 11376)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/401) (صحیح)»
Narrated Muawiyah ibn Khudayj: One day the Messenger of Allah ﷺ prayed and gave the salutation while a rak'ah of the prayer remained to be offered. A man went to him and said: You forgot to offer one rak'ah of prayer. Then he returned and entered the mosque and ordered Bilal (to utter the Iqamah). He uttered the Iqamah for prayer. He then led the people in one rak'ah of prayer. I stated it to the people. They asked me: Do you know who he was? I said: No, but I can recognise him if I see him. Then the man passed by me, I said: It is he. The people said: This is Talhah ibn Ubaydullah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 3 , Number 1018
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح أخرجه النسائي (665 وسنده صحيح) وصححه ابن خزيمة (1052 وسنده صحيح)
صلى يوما فسلم وقد بقيت من الصلاة ركعة فأدركه رجل فقال نسيت من الصلاة ركعة فرجع فدخل المسجد وأمر بلالا فأقام الصلاة فصلى للناس ركعة فأخبرت بذلك الناس فقالوا لي أتعرف الرجل قلت لا إلا أن أراه فمر بي فقلت هذا هو فقالوا هذا طلحة بن عبيد الله
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 665
´ایک رکعت بھول جانے کے بعد اسے پڑھنے کے لیے اقامت کہنے کا بیان۔` معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز پڑھائی، اور ابھی نماز کی ایک رکعت باقی ہی رہ گئی تھی کہ آپ نے سلام پھیر دیا، ایک شخص آپ کی طرف بڑھا، اور اس نے عرض کیا کہ آپ ایک رکعت نماز بھول گئے ہیں، تو آپ مسجد کے اندر آئے اور بلال کو حکم دیا تو انہوں نے نماز کے لیے اقامت کہی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ایک رکعت نماز پڑھائی، میں نے لوگوں کو اس کی خبر دی تو لوگوں نے مجھ سے کہا: کیا تم اس شخص کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا: نہیں، لیکن میں اسے دیکھ لوں (تو پہچان لوں گا) کہ یکایک وہ میرے قریب سے گزرا تو میں نے کہا: یہ ہے وہ شخص، تو لوگوں نے کہا: یہ طلحہ بن عبیداللہ (رضی اللہ عنہ) ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 665]
665 ۔ اردو حاشیہ: ➊ صورت واقعہ یوں معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیر کر مسجد سے نکل گئے۔ حضرت طلحہ نے جاکر آپ کو خبر دی۔ چونکہ فاصلہ ہو چکا تھا، لہٰذا آپ نے نئی اقامت کہلوائی تاکہ نمازی جمع ہو جائیں، اگرچہ یہ بھی کہا: جا سکتا ہے کہ آپ مسجد سے باہر نہ گئے تھے، اس صورت میں مسجد میں داخل ہونے سے مراد نماز کی جگہ پر واپس آنا ہے۔ لغوی طور پر اسے مسجد کہا: جا سکتا ہے۔ لیکن پہلی بات زیادہ مناسب ہے اور حدیث کے ظاہر سے قریب تر بھی۔ ➋ احناف اس صورت میں نماز باطل ہونے اور نئے سرے سے ساری نماز پڑھنے کے قائل ہیں اور اس حدیث کو ابتدائی دور پر محمول کرتے ہیں مگر یہ بات بلادلیل ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 665