حدثني، عن حدثني، عن مالك، عن زيد بن اسلم ، عن ابيه ، ان عمر بن الخطاب استعمل مولى له يدعى هنيا على الحمى، فقال: يا هني " اضمم جناحك عن الناس، واتق دعوة المظلوم، فإن دعوة المظلوم مجابة، وادخل رب الصريمة ورب الغنيمة، وإياي ونعم ابن عفان، ونعم وابن عوف فإنهما إن تهلك ماشيتهما يرجعا إلى زرع ونخل، وإن رب الصريمة ورب الغنيمة إن تهلك ماشيتهما ياتني ببنيه، فيقول: يا امير المؤمنين! يا امير المؤمنين! انا لا ابا لك فالماء والكلا ايسر علي من الذهب والورق، وايم الله إنهم ليرون اني قد ظلمتهم إنها لبلادهم ومياههم، قاتلوا عليها في الجاهلية واسلموا عليها في الإسلام، والذي نفسي بيده لولا المال الذي احمل عليه في سبيل الله، ما حميت عليهم من بلادهم شبرا" حَدَّثَنِي، عَنْ حَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ اسْتَعْمَلَ مَوْلًى لَهُ يُدْعَى هُنَيًّا عَلَى الْحِمَى، فَقَالَ: يَا هُنَيُّ " اضْمُمْ جَنَاحَكَ عَنِ النَّاسِ، وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ، فَإِنَّ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ مُجَابَةٌ، وَأَدْخِلْ رَبَّ الصُّرَيْمَةِ وَرَبَّ الْغُنَيْمَةِ، وَإِيَّايَ وَنَعَمَ ابْنِ عَفَّانَ، وَنَعَمَ وَابْنِ عَوْفٍ فَإِنَّهُمَا إِنْ تَهْلِكْ مَاشِيَتُهُمَا يَرْجِعَا إِلَى زَرْعٍ وَنَخْلٍ، وَإِنَّ رَبَّ الصُّرَيْمَةِ وَرب الْغُنَيْمَةِ إِنْ تَهْلِكْ مَاشِيَتُهُما يَأْتِنِي بِبَنِيهِ، فَيَقُولُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! أَنَا لَا أَبَا لَكَ فَالْمَاءُ وَالْكَلَأُ أَيْسَرُ عَلَيَّ مِنَ الذَّهَبِ وَالْوَرِقِ، وَايْمُ اللَّهِ إِنَّهُمْ لَيَرَوْنَ أَنِّي قَدْ ظَلَمْتُهُمْ إِنَّهَا لَبِلَادُهُمْ وَمِيَاهُهُمْ، قَاتَلُوا عَلَيْهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَأَسْلَمُوا عَلَيْهَا فِي الْإِسْلَامِ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْلَا الْمَالُ الَّذِي أَحْمِلُ عَلَيْهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، مَا حَمَيْتُ عَلَيْهِمْ مِنْ بِلَادِهِمْ شِبْرًا"
حضرت اسلم عدوی سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے مولیٰ کو جس کا نام ہنی تھا عامل مقرر کیا حمیٰ پر (حمیٰ وہ احاطہ ہے جہاں صدقے کے جانور جمع ہوتے ہیں)، اور کہا کہ اے ہنی! اپنا بازو روکے رہ لوگوں سے (ظلم مت کر)، کیونکہ مظلوم کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے، اور جس کے پاس تیس اونٹ ہیں، یا چالیس بکریاں، اُن کو چرانے سے مت روک، اور بچا رہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے جانوروں پر رعایت کر نے سے، کیونکہ اگر ان کے جانور تباہ ہو جائیں گے تو وہ اپنے باغات اور کھتیوں میں چلے آئیں گے، اور تیس اونٹ والا اور چالیس بکریوں والا اگر تباہ ہو جائے گا تو وہ اپنی اولاد کو لے کر میرے پاس آئے گا اور کہے گا: اے امیرالمؤمنین! اے امیرالمؤمنین! پھر کیا میں ان کو چھوڑ دوں گا؟ (ان کی خبر گیری نہ کروں گا؟)، تیرا باپ نہ ہو (یہ ایک بد دعا ہے عرب کے محاورے میں)، پانی اور گھاس دینا آسان ہے مجھ پر سونا چاندی دینے سے، قسم اللہ کی! وہ جانتے ہیں میں نے ان پر ظلم کیا، حالانکہ وہ ان کی زمین ہے اور انہی کا پانی ہے، جس پر لڑے زمانۂ جاہلیت میں۔ پھر مسلمان ہوئے اسی زمین اور پانی پر۔ قسم اللہ کی! اگر یہ صدقہ کے جانور نہ ہوتے جو انہی کے کام میں آتے ہیں اللہ کی راہ میں، تو میں ان کی زمین سے ایک بالشت بھر بھی نہ لیتا۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3059، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11927، والدارقطني فى «سننه» برقم: 4576، والبزار فى «مسنده» برقم: 272، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 19751، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 33595، فواد عبدالباقي نمبر: 60 - كِتَابُ دَعْوَةِ الْمَظْلُومِ-ح: 1»