وحدثني، عن مالك، عن ابن شهاب ، عن عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب ، عن عبد الله بن عبد الله بن الحارث بن نوفل ، عن عبد الله بن عباس ، ان عمر بن الخطاب خرج إلى الشام، حتى إذا كان بسرغ لقيه امراء الاجناد ابو عبيدة بن الجراح واصحابه، فاخبروه ان الوبا قد وقع بارض الشام، قال ابن عباس: فقال عمر بن الخطاب: ادع لي المهاجرين الاولين، فدعاهم فاستشارهم واخبرهم ان الوبا قد وقع بالشام فاختلفوا، فقال بعضهم: قد خرجت لامر ولا نرى ان ترجع عنه، وقال بعضهم: معك بقية الناس واصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا نرى ان تقدمهم على هذا الوبإ، فقال عمر: ارتفعوا عني، ثم قال: ادع لي الانصار، فدعوتهم فاستشارهم فسلكوا سبيل المهاجرين واختلفوا كاختلافهم، فقال: ارتفعوا عني، ثم قال: ادع لي من كان هاهنا من مشيخة قريش من مهاجرة الفتح، فدعوتهم فلم يختلف عليه منهم رجلان، فقالوا: نرى ان ترجع بالناس ولا تقدمهم على هذا الوبإ، فنادى عمر في الناس: إني مصبح على ظهر فاصبحوا عليه، فقال ابو عبيدة: افرارا من قدر الله؟ فقال عمر: لو غيرك قالها يا ابا عبيدة، نعم نفر من قدر الله إلى قدر الله، ارايت لو كان لك إبل فهبطت واديا له عدوتان إحداهما خصبة والاخرى جدبة، اليس إن رعيت الخصبة رعيتها بقدر الله، وإن رعيت الجدبة رعيتها بقدر الله؟ فجاء عبد الرحمن بن عوف وكان غائبا في بعض حاجته، فقال: إن عندي من هذا علما: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إذا سمعتم به بارض فلا تقدموا عليه، وإذا وقع بارض وانتم بها فلا تخرجوا فرارا منه"، قال: فحمد الله عمر ثم انصرف وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ إِلَى الشَّامِ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِسَرْغَ لَقِيَهُ أُمَرَاءُ الْأَجْنَادِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ وَأَصْحَابُهُ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّ الْوَبَأَ قَدْ وَقَعَ بِأَرْضِ الشَّامِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: ادْعُ لِي الْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ، فَدَعَاهُمْ فَاسْتَشَارَهُمْ وَأَخْبَرَهُمْ أَنَّ الْوَبَأَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّامِ فَاخْتَلَفُوا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: قَدْ خَرَجْتَ لِأَمْرٍ وَلَا نَرَى أَنْ تَرْجِعَ عَنْهُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: مَعَكَ بَقِيَّةُ النَّاسِ وَأَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا نَرَى أَنْ تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الْوَبَإِ، فَقَالَ عُمَرُ: ارْتَفِعُوا عَنِّي، ثُمَّ قَالَ: ادْعُ لِي الْأَنْصَارَ، فَدَعَوْتُهُمْ فَاسْتَشَارَهُمْ فَسَلَكُوا سَبِيلَ الْمُهَاجِرِينَ وَاخْتَلَفُوا كَاخْتِلَافِهِمْ، فَقَالَ: ارْتَفِعُوا عَنِّي، ثُمَّ قَالَ: ادْعُ لِي مَنْ كَانَ هَاهُنَا مِنْ مَشْيَخَةِ قُرَيْشٍ مِنْ مُهَاجِرَةِ الْفَتْحِ، فَدَعَوْتُهُمْ فَلَمْ يَخْتَلِفْ عَلَيْهِ مِنْهُمُ رَجُلَانِ، فَقَالُوا: نَرَى أَنْ تَرْجِعَ بِالنَّاسِ وَلَا تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الْوَبَإِ، فَنَادَى عُمَرُ فِي النَّاسِ: إِنِّي مُصْبِحٌ عَلَى ظَهْرٍ فَأَصْبِحُوا عَلَيْهِ، فَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ: أَفِرَارًا مِنْ قَدَرِ اللَّهِ؟ فَقَالَ عُمَرُ: لَوْ غَيْرُكَ قَالَهَا يَا أَبَا عُبَيْدَةَ، نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ إِلَى قَدَرِ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ لَكَ إِبِلٌ فَهَبَطَتْ وَادِيًا لَهُ عُدْوَتَانِ إِحْدَاهُمَا خَصِبَةٌ وَالْأُخْرَى جَدْبَةٌ، أَلَيْسَ إِنْ رَعَيْتَ الْخَصِبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ، وَإِنْ رَعَيْتَ الْجَدْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ؟ فَجَاءَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ وَكَانَ غَائِبًا فِي بَعْضِ حَاجَتِهِ، فَقَالَ: إِنَّ عِنْدِي مِنْ هَذَا عِلْمًا: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوا عَلَيْهِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ"، قَالَ: فَحَمِدَ اللَّهَ عُمَرُ ثُمَّ انْصَرَفَ
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ شام کی طرف نکلے(1)، جب سرغ میں پہنچے (سرغ ایک قریہ ہے وادی تبوک میں)، تو لشکر کے بڑے بڑے افسران سے ملے جیسے سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی(2)، انہوں نے کہا: شام میں آج کل وباء ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ بلاؤ بڑے بڑے مہاجرین کو جنہوں نے پہلے ہجرت کی ہے، تو بلایا ان کو، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے مشورہ کیا اور بیان کیا ان سے کہ شام میں وباء ہو رہی ہے، انہوں نے اختلاف کیا، بعضوں نے کہا: آپ کام کے واسطے نکلے ہیں (رعیت کا حال دیکھنے کو)، لوٹنا مناسب نہیں ہے، بعض نے کہا کہ آپ کے ساتھ اور لوگ بھی ہیں اور صحابہ ہیں، مناسب نہیں کہ آپ ان کو اس وباء میں لے جائیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جاؤ، اور کہا بلاؤ انصار کو۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے انصار کو بلایا اور وہ آئے، ان سے مشورہ کیا، انہوں نے بھی مہاجرین کی مثل بیان کی اور اسی طرح اختلاف کیا۔ آپ نے کہا: جاؤ، پھر کہا: بلاؤ قریش کے بوڑھے بوڑھے لوگوں کو جہنوں نے ہجرت کی فتح مکّہ کے بعد، میں نے ان کو بلایا، ان میں سے دو آدمیوں نے بھی اختلاف نہیں کیا، بلکہ سب نے کہا: ہمارے نزدیک مناسب یہ ہے کہ آپ لوٹ جائیں اور لوگوں کو اس وباء میں نہ لے جائیں۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں منادی کرادی کہ صبح کو میں اونٹ پر سوار ہوں گا (اور مدینہ کو لوٹ چلوں گا)، پھر صبح کو سب لوگ اونٹ پر سوار ہو کر چلے، اور اس وقت سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ جل جلالہُ کی تقدیر سے بھاگے جاتے ہو۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کاش یہ بات کسی اور نے کہی ہوتی(3)۔ ہاں ہم بھاگتے ہیں اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف(4)۔ کیا اگر تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم ایک وادی میں جاؤ جس کے دو کنارے ہوں، ایک کنارہ سر سبز اور شاداب ہو اور دوسرا خشک اور خراب ہو، اگر تو اپنے اونٹوں کو سر سبز اور شاداب میں چرائے تب بھی تو نے اللہ کی تقدیر سے چرایا، اور جو تو نے خشک اور خراب میں چرائے تب بھی تو نے اللہ کی تقدیر سے چرایا(5)۔ اتنے میں سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ آئے اور وہ کہیں کام کو گئے ہوئے تھے، انہوں نے کہا: میں اس مسئلے کا عالم ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جب تم سنو کہ کسی سر زمین میں وباء ہے تو وہاں نہ جاؤ، اور جب کسی سر زمین میں وباء پڑے اور تم وہاں موجود ہو تو بھاگو بھی نہیں۔“ کہا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے: اس وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ جل جلالہُ کی حمد بیان کی اور لوٹ کھڑے ہوئے(6)۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5729، 5730، 6973، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2219، 2219، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2912، 2953، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 7479، 7480، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3103، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6652، 14357، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1683، فواد عبدالباقي نمبر: 45 - كِتَابُ الْجَامِعِ-ح: 22»