وحدثني مالك انه بلغه، ان مروان بن الحكم كان " يقضي في العبد يصاب بالجراح ان على من جرحه قدر ما نقص من ثمن العبد" . وَحَدَّثَنِي مَالِك أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ كَانَ " يَقْضِي فِي الْعَبْدِ يُصَابُ بِالْجِرَاحِ أَنَّ عَلَى مَنْ جَرَحَهُ قَدْرَ مَا نَقَصَ مِنْ ثَمَنِ الْعَبْدِ" .
حضرت مروان بن حَکم حُکم کرتا تھا اس شخص پر جو زخمی کرے غلام کو کہ جس قدر اس زخم کی وجہ سے اس کی قیمت میں نقصان ہوا وہ ادا کرے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف، وانفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 43 - كِتَابُ الْعُقُولِ-ح: 8ق3»
قال مالك: والامر عندنا ان في موضحة العبد نصف عشر ثمنه، وفي منقلته العشر ونصف العشر من ثمنه، وفي مامومته وجائفته في كل واحدة منهما ثلث ثمنه، وفيما سوى هذه الخصال الاربع، مما يصاب به العبد ما نقص من ثمنه، ينظر في ذلك بعد ما يصح العبد ويبرا، كم بين قيمة العبد بعد ان اصابه الجرح، وقيمته صحيحا قبل ان يصيبه هذا، ثم يغرم الذي اصابه ما بين القيمتين. قَالَ مَالِك: وَالْأَمْرُ عِنْدَنَا أَنَّ فِي مُوضِحَةِ الْعَبْدِ نِصْفَ عُشْرِ ثَمَنِهِ، وَفِي مُنَقِّلَتِهِ الْعُشْرُ وَنِصْفُ الْعُشْرِ مِنْ ثَمَنِهِ، وَفِي مَأْمُومَتِهِ وَجَائِفَتِهِ فِي كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا ثُلُثُ ثَمَنِهِ، وَفِيمَا سِوَى هَذِهِ الْخِصَالِ الْأَرْبَعِ، مِمَّا يُصَابُ بِهِ الْعَبْدُ مَا نَقَصَ مِنْ ثَمَنِهِ، يُنْظَرُ فِي ذَلِكَ بَعْدَ مَا يَصِحُّ الْعَبْدُ وَيَبْرَأُ، كَمْ بَيْنَ قِيمَةِ الْعَبْدِ بَعْدَ أَنْ أَصَابَهُ الْجُرْحُ، وَقِيمَتِهِ صَحِيحًا قَبْلَ أَنْ يُصِيبَهُ هَذَا، ثُمَّ يَغْرَمُ الَّذِي أَصَابَهُ مَا بَيْنَ الْقِيمَتَيْنِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ غلام کے موضحہ میں اس کی قیمت کا بیسواں حصّہ اور منقلہ میں دسواں حصّہ اور بیسواں حصّہ اور مامومہ اور جائفہ میں تیسرا حصّہ دینا ہوگا، سوائے ان کے اور طرح کے زخموں میں جس قدر قیمت میں نقصان ہو گیا دینا ہوگا، جب وہ غلام اچھا ہو جائے تب دیکھیں گے کہ اس کی قیمت اس زخم سے پہلے کیا تھی اور اب کتنی ہے۔ جس قدر کمی ہوگی وہ دینی ہو گی۔
قال مالك، في العبد إذا كسرت يده او رجله ثم صح كسره: فليس على من اصابه شيء، فإن اصاب كسره ذلك نقص او عثل كان على من اصابه قدر ما نقص من ثمن العبد. قَالَ مَالِك، فِي الْعَبْدِ إِذَا كُسِرَتْ يَدُهُ أَوْ رِجْلُهُ ثُمَّ صَحَّ كَسْرُهُ: فَلَيْسَ عَلَى مَنْ أَصَابَهُ شَيْءٌ، فَإِنْ أَصَابَ كَسْرَهُ ذَلِكَ نَقْصٌ أَوْ عَثَلٌ كَانَ عَلَى مَنْ أَصَابَهُ قَدْرُ مَا نَقَصَ مِنْ ثَمَنِ الْعَبْدِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب غلام کا ہاتھ یا پاؤں کوئی شخص توڑ ڈالے، پھر وہ اچھا ہو جائے تو کچھ تاوان نہیں ہوگا، البتہ اگر کسی قدر نقصان رہ جائے تو اس کا تاوان دینا ہوگا۔
قال مالك: الامر عندنا في القصاص بين المماليك كهيئة قصاص الاحرار نفس الامة بنفس العبد وجرحها بجرحه، فإذا قتل العبد عبدا عمدا خير سيد العبد المقتول، فإن شاء قتل وإن شاء اخذ العقل، فإن اخذ العقل اخذ قيمة عبده، وإن شاء رب العبد القاتل ان يعطي ثمن العبد المقتول فعل، وإن شاء اسلم عبده فإذا اسلمه فليس عليه غير ذلك، وليس لرب العبد المقتول إذا اخذ العبد القاتل ورضي به ان يقتله، وذلك في القصاص كله بين العبيد في قطع اليد والرجل واشباه ذلك بمنزلته في القتل. قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِي الْقِصَاصِ بَيْنَ الْمَمَالِيكِ كَهَيْئَةِ قِصَاصِ الْأَحْرَارِ نَفْسُ الْأَمَةِ بِنَفْسِ الْعَبْدِ وَجُرْحُهَا بِجُرْحِهِ، فَإِذَا قَتَلَ الْعَبْدُ عَبْدًا عَمْدًا خُيِّرَ سَيِّدُ الْعَبْدِ الْمَقْتُولِ، فَإِنْ شَاءَ قَتَلَ وَإِنْ شَاءَ أَخَذَ الْعَقْلَ، فَإِنْ أَخَذَ الْعَقْلَ أَخَذَ قِيمَةَ عَبْدِهِ، وَإِنْ شَاءَ رَبُّ الْعَبْدِ الْقَاتِلِ أَنْ يُعْطِيَ ثَمَنَ الْعَبْدِ الْمَقْتُولِ فَعَلَ، وَإِنْ شَاءَ أَسْلَمَ عَبْدَهُ فَإِذَا أَسْلَمَهُ فَلَيْسَ عَلَيْهِ غَيْرُ ذَلِكَ، وَلَيْسَ لِرَبِّ الْعَبْدِ الْمَقْتُولِ إِذَا أَخَذَ الْعَبْدَ الْقَاتِلَ وَرَضِيَ بِهِ أَنْ يَقْتُلَهُ، وَذَلِكَ فِي الْقِصَاصِ كُلِّهِ بَيْنَ الْعَبِيدِ فِي قَطْعِ الْيَدِ وَالرِّجْلِ وَأَشْبَاهِ ذَلِكَ بِمَنْزِلَتِهِ فِي الْقَتْلِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ غلاموں میں اور لونڈیوں میں قصاص کا حُکم مثل آزادوں کے ہوگا، اگر غلام لونڈی کو قصداً قتل کرے تو غلام بھی قتل کیا جائے گا، اگر اس کو زخمی کرے وہ بھی زخمی کیا جائے گا، ایک غلام نے دوسرے غلام کو عمداً مار ڈالا تو مقتول کے مولیٰ کو اختیار ہوگا، چاہے قاتل کو قتل کرے چاہے دیت یعنی اپنے غلام کی قیمت لے لے۔ قاتل کے مولیٰ کو اختیار ہے چاہے مقتول کی قیمت ادا کرے اور قاتل کو اپنے پاس رہنے دے، چاہے قاتل ہی کو حوالے کردے، اس سے زیادہ اور کچھ لازم نہ آئے گا۔ اب جب مقتول کا مولیٰ دیت پر راضی ہو کر قاتل کو لے لے تو پھر اس کو قتل نہ کرے۔ اسی طرح اگر ایک غلام دوسرے غلام کا ہاتھ یا پاؤں کاٹے تو اس کے قصاص کا بھی یہی حکم ہے۔
قال مالك، في العبد المسلم يجرح اليهودي او النصراني: إن سيد العبد إن شاء ان يعقل عنه ما قد اصاب فعل، او اسلمه فيباع فيعطي اليهودي او النصراني من ثمن العبد دية جرحه او ثمنه كله إن احاط بثمنه، ولا يعطي اليهودي ولا النصراني عبدا مسلماقَالَ مَالِك، فِي الْعَبْدِ الْمُسْلِمِ يَجْرَحُ الْيَهُودِيَّ أَوِ النَّصْرَانِيَّ: إِنَّ سَيِّدَ الْعَبْدِ إِنْ شَاءَ أَنْ يَعْقِلَ عَنْهُ مَا قَدْ أَصَابَ فَعَلَ، أَوْ أَسْلَمَهُ فَيُبَاعُ فَيُعْطِي الْيَهُودِيَّ أَوِ النَّصْرَانِيَّ مِنْ ثَمَنِ الْعَبْدِ دِيَةَ جُرْحِهِ أَوْ ثَمَنَهُ كُلَّهُ إِنْ أَحَاطَ بِثَمَنِهِ، وَلَا يُعْطِي الْيَهُودِيَّ وَلَا النَّصْرَانِيَّ عَبْدًا مُسْلِمًا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مسلمان غلام کسی یہودی یا نصرانی کو زخمی کرے تو غلام کے مولیٰ کو اختیار ہے، چاہے دیت دے یا غلام کو حوالے کر دے، تو اس غلام کو بیچ کر اس کی دیت ادا کریں گے، مگر وہ غلام یہودی یا نصرانی کے پاس رہ نہیں سکتا (کیونکہ مسلمان کو کافر کا محکوم کرنا درست نہیں)۔