وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن ابي الزناد ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن ، ان ناسا من اهل الجار قدموا، فسالوا مروان بن الحكم عما لفظ البحر، فقال: ليس به باس، وقال: اذهبوا إلى زيد بن ثابت، وابي هريرة، فاسالوهما عن ذلك، ثم ائتوني فاخبروني ماذا يقولان؟ فاتوهما، فسالوهما، فقالا: لا باس به . فاتوا مروان، فاخبروه، فقال مروان: قد قلت لكم. قال مالك: لا باس باكل الحيتان يصيدها المجوسي، لان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال في البحر:" هو الطهور، ماؤه الحل ميتته". قال مالك: وإذا اكل ذلك ميتا، فلا يضره من صادهوَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الْجَارِ قَدِمُوا، فَسَأَلُوا مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ عَمَّا لَفَظَ الْبَحْرُ، فَقَالَ: لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ، وَقَالَ: اذْهَبُوا إِلَى زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، فَاسْأَلُوهُمَا عَنْ ذَلِكَ، ثُمَّ ائْتُونِي فَأَخْبِرُونِي مَاذَا يَقُولَانِ؟ فَأَتَوْهُمَا، فَسَأَلُوهُمَا، فَقَالَا: لَا بَأْسَ بِهِ . فَأَتَوْا مَرْوَانَ، فَأَخْبَرُوهُ، فَقَالَ مَرْوَانُ: قَدْ قُلْتُ لَكُمْ. قَالَ مَالِك: لَا بَأْسَ بِأَكْلِ الْحِيتَانِ يَصِيدُهَا الْمَجُوسِيُّ، لِأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فِي الْبَحْرِ:" هُوَ الطَّهُورُ، مَاؤُهُ الْحِلُّ مَيْتَتُهُ". قَالَ مَالِكٌ: وَإِذَا أُكِلَ ذَلِكَ مَيْتًا، فَلَا يَضُرُّهُ مَنْ صَادَهُ
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ کچھ لوگ جار کے رہنے والے (جار ایک مقام ہے سمندر کے کنارے پر قریب مدینہ منورہ کے) مروان کے پاس آئے اور پوچھا کہ جس جانور کو دریا پھینک دے اس کا کیا حکم ہے؟ مروان نے کہا: اس کا کھانا درست ہے، اور تم جاؤ سیدنا زید بن ثابت اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کے پاس اور پوچھو ان سے، پھر مجھ کو آن کر خبر کرو کیا کہتے ہیں، انہوں نے پوچھا ان دونوں سے، دونوں نے کہا: درست ہے۔ ان لوگوں نے پھر آ کر مروان سے کہا، مروان نے کہا: میں تو تم سے پہلے ہی کہہ چکا تھا۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: مشرک اگر مچھلیوں کا شکار کرے تو ان کا کھانا درست ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دریا کا پانی پاک ہے، مردہ اس کا حلال ہے۔“ جب مردہ دریا کا حلال ہوا تو کوئی شکار کرے تو اس کا کھانا درست ہے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18980، 19982، والدارقطني فى «سننه» برقم: 4727، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 20122، 20126، فواد عبدالباقي نمبر: 25 - كِتَابُ الصَّيْدِ-ح: 12»