مسند الحميدي کل احادیث 1337 :حدیث نمبر

مسند الحميدي
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
حدیث نمبر: 966
Save to word اعراب
966 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: سمعت الزهري يحدث، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، قال: قام رجل فسال النبي صلي الله عليه وسلم ايصلي احدنا في الثوب الواحد؟ فقال النبي صلي الله عليه وسلم: «اولكلكم ثوبان»
وقال ابو هريرة لرجل يساله: «اتعرف ابا هريرة، فإنه يصلي في ثوب واحد، وإن ثيابه موضوعة علي المشجب»
966 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَامَ رَجُلٌ فَسَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُصَلِّي أَحَدُنَا فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوَلِكُلِّكُمْ ثَوْبَانِ»
وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ لِرَجُلٍ يَسْأَلُهُ: «أَتَعْرِفُ أَبَا هُرَيْرَةَ، فَإِنَّهُ يُصَلِّي فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، وَإِنَّ ثِيَابَهُ مَوضُوعَةٌ عَلَي الْمِشْجَبِ»
966- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک شخص کھڑا ہوا اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: کیا کوئی شخص ایک کپڑے میں نماز ادا کرسکتا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم میں سے ہر ایک کے پاس دوکپڑے ہوتے ہیں؟ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے فرمایا: جس نے ان سے سوال کیا تھا، کیا تم ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)کو جانتے ہو؟ وہ ایک ہی کپڑے میں نماز ادا کرلیتا ہے۔ حالانکہ اس کا دوسرا کپڑا کھونٹی پر لٹکا ہوا ہوتا ہے۔


تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 358، 365، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 515، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 758، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1714، 2295، 2296، 2298، 2303، 2306، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 762، وأبو داود فى «سننه» برقم: 625، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1410، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1047، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3326، 3328، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7270، 7371»

   صحيح البخاري360عبد الرحمن بن صخرمن صلى في ثوب واحد فليخالف بين طرفيه
   صحيح البخاري359عبد الرحمن بن صخرلا يصلي أحدكم في الثوب الواحد ليس على عاتقيه شيء
   صحيح البخاري365عبد الرحمن بن صخرأوكلكم يجد ثوبين
   صحيح البخاري358عبد الرحمن بن صخرأولكلكم ثوبان
   صحيح مسلم1151عبد الرحمن بن صخرلا يصلي أحدكم في الثوب الواحد ليس على عاتقيه منه شيء
   صحيح مسلم1150عبد الرحمن بن صخرأو كلكم يجد ثوبين
   صحيح مسلم1148عبد الرحمن بن صخرأولكلكم ثوبان
   سنن أبي داود625عبد الرحمن بن صخرأولكلكم ثوبان
   سنن أبي داود626عبد الرحمن بن صخرلا يصل أحدكم في الثوب الواحد ليس على منكبيه منه شيء
   سنن أبي داود627عبد الرحمن بن صخرإذا صلى أحدكم في ثوب فليخالف بطرفيه على عاتقيه
   سنن النسائى الصغرى770عبد الرحمن بن صخرلا يصلين أحدكم في الثوب الواحد ليس على عاتقه منه شيء
   سنن النسائى الصغرى764عبد الرحمن بن صخرأولكلكم ثوبان
   سنن ابن ماجه1047عبد الرحمن بن صخرأو كلكم يجد ثوبين
   بلوغ المرام162عبد الرحمن بن صخرلا يصلي احدكم في الثوب الواحد ليس على عاتقه منه شيء
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم201عبد الرحمن بن صخراو كلكم يجد ثوبين؟
   المعجم الصغير للطبراني196عبد الرحمن بن صخر أيصلي الرجل فى الثوب الواحد ؟ فقال : أكلكم يجد ثوبين ؟
   المعجم الصغير للطبراني324عبد الرحمن بن صخر أيصلي أحدنا فى الثوب الواحد ؟ ، فقال : أو كلكم يجد ثوبين
   مسندالحميدي966عبد الرحمن بن صخرأولكلكم ثوبان
   مسندالحميدي993عبد الرحمن بن صخر

مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 966 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:966  
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنا درست ہے، اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کرام ﷡ نے تنگ دستی کی حالت میں اسلام کے احکامات کو اپنا شعار بنائے رکھا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 965   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 162  
´نماز میں چادر اوڑھنا یا پہننا`
«. . . ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال له: ‏‏‏‏إذا كان الثوب واسعا فالتحف به في الصلاة . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: جب کپڑا بڑا اور فراخ ہو تو (نماز میں) کپڑا خوب (جسم پر) لپیٹ لو . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 162]
لغوی تشریح:
«فالتحف»، «التحاف» سے امر کا صغیہ مراد ہے۔ معنی ہیں: چادر اوڑھنا یا پہننا۔ اس اوڑھنے کی کیفیت کی وضاحت اگلا جملہ «فخالف بين طرفيه» کر رہا ہے۔ اس کی صورت یہ ہو گی کہ کپڑے کے درمیان کو اپنے جسم کے درمیان میں پچھلی جانب رکھے، پر دائیں جانب کو پکڑ کر سامنے سے بائیں کندھے پر ڈال دے اور اسی طرح بائیں جانب کو دائیں کندھے پر ڈال دے اور گدی کے پاس دونوں کونوں کو گانٹھ (گرہ) دے لے۔
«فَاتَّزَرْ» باب افتعال سے امر کا صیغہ ہے، معنی ہیں: تہ بند باندھنا، ازار پہننا۔

فائدہ:
اس کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ چادر اگر بڑی ہو تو اس کا ایک حصہ ازار کے طور پر اور کچھ رواء (اوپر والی چادر) کے طور پر اس طرح اوڑھ لے کہ اس کے دونوں کنارے (ایک دوسرے کے مخالف) کندھوں پر ہوں، کندھے ننگے نہ رہیں۔ اور اگر چادر چھوٹی ہو تو پھر اسے ازار (تہ بند) کے طور پر باندھ لے۔ مشہور قول کے مطابق مرد کے لیے قابل ستر حصہ ناف سے لے کر گھٹنوں تک ہے۔ [سبل السلام]
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 162   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 201  
´مردوں کے لئے ایک کپڑے مثلاً ایک چادر یا صرف قمیض میں نماز پڑھنا جائز ہے`
«. . . ان سائلا سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الصلاة فى ثوب واحد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: او كلكم يجد ثوبين؟»
کسی شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک کپڑے میں نماز (پڑھنے) کے بارے میں پوچھا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم میں سے ہر آدمی کے پاس دو کپڑے موجود ہیں؟ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 201]
تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 140/1 ح 316، ك 8 ب 9 ح 30، التمهيد 363/6، الاستذكار: 286، و أخرجه البخاري 358، ومسلم 515، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ مردوں کے لئے ایک کپڑے مثلاً ایک چادر یا صرف قمیض میں نماز پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ کندھے ڈھکے ہوئے ہوں لیکن بہتر یہ ہے کہ دو (یا زیادہ) کپڑوں میں نماز پڑھیں۔
➋ کسی کام میں مشغولیت کی وجہ سے نافع رحمہ اللہ ایک کپڑے میں نماز پڑھ رہے تھے تو نماز کے بعد سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں نے تمہیں دو کپڑے نہیں دیئے تھے؟ نافع نے کہا: جی ہاں! ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں تمہیں ایک کپڑے میں باہر بھیجوں تو چلے جاؤ گے؟ نافع نے کہا: نہیں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا اللہ اس کا مستحق ہے کہ اس کے لئے زینت اختیار کی جائے یا لوگ؟ نافع نے کہا: اللہ، پھر ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (یا عمر رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: «إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ ثَوْبَيْنِ فَلْيُصَلِّ فِيهِمَا۔۔۔» اگر تم میں سے کسی کے پاس دو کپڑے ہوں تو ان میں نماز پڑھے [التمهيد 371/6 وسنده صحيح]
● نیز دیکھئے [السنن الكبريٰ للبيهقي 236/2 وسنده صحيح، شرح معاني الآثار للطحاوي 377/1، ومجموع فتاويٰ ابن تيميه 117/22، ولفظه غريب]
➌ مرد کے لئے ننگے سر نماز پڑھنا جائز ہے لیکن حج و عمرے کے علاوہ بہتر یہ ہے کہ سر پر ٹوپی، رومال، عمامہ یا کپڑا ہو۔ دیکھئے میری کتاب: [هدية المسلمين حديث نمبر 10]
➍ عورت کو گھر میں چہرے کے علاوہ باقی جسم ڈھانک کر نماز پڑھنی چاہئے اور غیر مردوں کی موجودگی میں اپنا چہرہ بھی چھپانا چاہئے، یہ بہتر اور افضل ہے۔ نیز دیکھئے: [التمهيد 364/6]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 12   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 359  
´نماز میں کندھے ڈھانپنا فرض ہے`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يُصَلِّي أَحَدُكُمْ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ لَيْسَ عَلَى عَاتِقَيْهِ شَيْءٌ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی شخص کو بھی ایک کپڑے میں نماز اس طرح نہ پڑھنی چاہیے کہ اس کے کندھوں پر کچھ نہ ہو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ: 359]
فوائد:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں کندھے ڈھانپنا فرض ہے۔
➋ بعض لوگ نماز میں مردوں پر سر ڈھانپنا لازمی قرار دیتے ہیں لیکن اس کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
شمائل الترمذی [ص 71 و فى نسختنا ص 4 حديث: 33، 125] کی روایت جس میں: «يكثر القناع» یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات اپنے سر مبارک پر کپڑا رکھتے تھے آیا ہے۔
وہ یزید بن ابان الرقاشی کی وجہ سے ضعیف ہے،
یزید پر جرح کے لئے تہذیب التہذیب [ج11 ص 270] وغیرہ دیکھیں،
◈ امام نسائی رحمه الله نے فرمایا: «متروك بصري» [كتاب الضعفاء: 642]
◈ حافظ ہیثمی نے کہا: «ويزيد الرقاشي ضعفه الجهمور» اور یزید الرقاشی کو جمہور نے ضعیف کہا ہے۔ [مجمع الزوائد 226/6]
◈ تقریب التہذیب [7683] میں لکھا ہوا ہے «زاهد ضعيف»
دیوبندیوں اور بریلویوں کی معتبر و مستند کتاب در مختار میں لکھا ہوا ہے کہ جو شخص عاجزی کے لئے ننگے سر نماز پڑھے تو ایسا کرنا جائز ہے [الدرالمختار مع رد المختار 474/1]

اب دیوبندی فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:
سوال: ایک کتاب میں لکھا ہے کہ جو شخص ننگے سر اس نیت سے نماز پڑھے کہ عاجزانہ درگاہ خدا میں حاضر ہو تو کچھ حرج نہیں۔
جواب: یہ تو کتب فقہ میں بھی لکھا ہے کہ بہ نیت مذکورہ ننگے سر نماز پڑھنے میں کراہت نہیں ہے۔ [فتاويٰ دارالعلوم ديوبند 94/4]

احمد رضاخان بریلوی صاحب نے لکھا ہے:
اگر بہ نیت عاجزی ننگے سر پڑھتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔ [احكام شريعت حصهٔ اول ص 130]

بعض مساجد میں نماز کے دوران میں سر ڈھانپنے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے، اس لئے انہوں نے تنکوں سے بنی ہوئی ٹوپیاں رکھی ہوتی ہیں، ایسی ٹوپیاں نہیں پہننی چاہئیں، کیونکہ وہ عزت اور وقار کے منافی ہیں کیا کوئی ذی شعور انسان ایسی ٹوپی پہن کر کسی پروقار مجلس وغیرہ میں جاتا ہے؟ یقیناً نہیں تو پھر اللہ کے دربار میں حاضری دیتے وقت تو لباس کو خصوصی اہمیت دینی چاہئیے۔

اس کے علاوہ سر ڈھانپنا اگر سنت ہے اور اس کے بغیر نماز میں نقص رہتا ہے تو پھر داڑھی رکھنا تو اس سے بھی زیادہ ضروری بلکہ فرض ہے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی کے بغیر کوئی نماز پڑھی ہے؟ اللہ تعالیٰ فہم دین اور اتباع سنت کی توفیق عطا فرمائے۔

تنبیہ:
راقم الحروف کی تحقیق میں، ضرورت کے وقت ننگے سر مرد کی نماز جائز ہے لیکن بہتر و افضل یہی ہے کہ سر پر ٹوپی، عمامہ یا رومال ہو۔
❀ نافع تابعی کو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے دیکھا کہ وہ ایک کپڑے میں نماز پڑھ رہے ہیں تو انہوں نے فرمایا: کیا میں نے تمہیں دو کپڑے نہیں دیئے؟ …کیا میں تمہیں اس حالت میں باہر بھیجوں تو چلے جاؤ گے؟ نافع نے کہا: نہیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا اللہ اس کا زیادہ مستحق نہیں ہے کہ اس کے سامنے زینت اختیار کی جائے یا انسان اس کے زیادہ مستحق ہیں؟ پھر انہوں نے نافع رحمہ اللہ کو ایک حدیث سنائی جس سے دو کپڑوں میں نما زپڑھنے کا حکم ثابت ہوتا ہے۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي ملخصًا 236/2 و سنده صحيح]
   ۔۔۔، حدیث/صفحہ نمبر: 1   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 625  
´کتنے کپڑوں میں نماز پڑھنی درست ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: کیا تم میں سے ہر ایک کو دو کپڑے میسر ہیں؟۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 625]
625۔ اردو حاشیہ:
یعنی جب فی الواقع ہر انسان کو دو کپڑے مہیا نہیں تو شریعت میں بھی تنگی نہیں، ایک کپڑے میں بھی نماز جائز ہے، اس کے باندھنے کا طریقہ درج ذیل احادیث سے بیان ہوا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 625   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 627  
´کتنے کپڑوں میں نماز پڑھنی درست ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص ایک کپڑے میں نماز پڑھے تو اس کے داہنے کنارے کو بائیں کندھے پر اور بائیں کنارے کو داہنے کندھے پر ڈال لے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 627]
627۔ اردو حاشیہ:
یعنی کمر پر اس طرح لپٹیے کہ اس کا دایاں پلّو بائیں کندھے پر اور بایاں پلّو دائیں کندھے پر آ جائے، اس طرح یہ کپڑا تہ بند اوپر کی چادر، دونوں کا کام دے گا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 627   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 770  
´مرد کا ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا بیان جس کا کوئی حصہ اس کے کندھے پر نہ ہو۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے جس کا کوئی حصہ اس کے کندھے پر نہ ہو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 770]
770 ۔ اردو حاشیہ: یہ اس وقت ہے جب کپڑا وسیع ہو۔ اگر کپڑا چھوٹا ہو تو اسے ازار کے طور پر باندھ لیا جائے۔ اگر کوئی اور کپڑا میسر نہ ہو تو ناف سے گھٹنوں تک پردہ کفایت کر جائے گا اور شرعاً یہ جائز ہے کیونکہ مجبوری میں اس معاملے میں تخفیف ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 770   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1047  
´ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم میں سے کوئی ایک کپڑے میں نماز پڑھ سکتا ہے؟، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم میں سے ہر شخص کو دو کپڑے میسر ہیں؟ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1047]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مرد ایک کپڑا اوڑھ کر نماز ادا کرسکتاہے۔
عربوں میں ایک کپڑا اوڑھنے کا طریقہ یہ تھا کہ کمر پر کپڑا تہہ بند کی طرح رکھ کر آگے کی طرف لاکر اس کا دایاں سرا بایئں کندھے پر ڈال لیا جائے۔
اور بایاں پلو دایئں کندھے پر ڈال لیا جائے۔
اس طرح ایک ہی کپڑے سے ستر چھپ جائے گا۔
پیٹ وغیرہ بھی اور کندھے بھی۔
گویا ایک بڑے کپڑے سے دو کپڑوں کا کام چل جاتا ہے۔

(2)
اگر کپڑا چھوٹا ہو اور مذکورہ بالاطریقے سے اوڑھنا ممکن نہ ہو۔
تودوسرا کپڑا بھی استعمال کرنا چاہیے۔
ایک کپڑے کو تہہ بند کی طرح باندھ لیا جائے۔
اور دوسرے کو چادر کی طرح اوڑھ لیا جائے۔
اگر اوڑھا نہ جا سکتا ہو۔
تو کندھوں پر ڈال لیا جائے۔
کیونکہ نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے۔
کوئی شخص ایک کپڑے میں اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھوں پر کچھ نہ ہو (صحیح البخاري، الصلاة، باب إذا صلی فی الثوب الواحد فلیجعل علی عاتقیه، حدیث: 359)

(3)
حدیث میں (عَاتِق)
کالفظ ہے۔
جس کا ترجمہ کندھا کیا گیا ہے کندھے کےلئے دوسرا لفظ منکب ہے۔
جو اس مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔
جو اردو میں کندھے کا متعارف مفہوم ہے۔
عاتق کا اصل مطلب منکب اور گردن کے درمیان کی جگہ ہے مطلب یہ ہے کہ جسم کے بالائی حصہ پر بھی کوئی لباس یا کپڑا ہونا چاہیے۔

(4)
اگر کپڑا ایک ہی ہو اور اسے اوڑھا نہ جا سکتا ہو تو تہہ بند کی طرح باندھ کر نماز پڑھ لی جائے۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے۔
اگر کپڑا کھلا ہوتو اس میں لپٹ جاؤ اور اگر تنگ ہو تو اسے تہہ بند بنا لو (صحیح البخاري، الصلاة، باب إذا کان الثوب ضیقاً، حدیث: 361)

(5)
عورت کو نماز میں اپنا تمام جسم ڈھانپنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1047   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:993  
993- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: کوئی بھی شخص یہ ہر گز نہ کہے: اے اللہ! اگر تو چاہے، تو میری مغفرت کردے۔ اے اللہ! اگر تو چاہے، تو مجھ پر رحم کر۔ آدمی کو پر عزم طریقے سے مانگنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو مجبور کرنے والا کوئی نہیں ہے۔‏‏‏‏ (یہاں ایک لفظ کے بارے میں راوی کو شک ہے) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:993]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دعا پورے وثوق سے کرنی چاہیے، نہ کہ تردد اور شک سے۔ اللہ تعالیٰ سے جب بھی سوال کرنا ہے یقین کی بنیاد پر کرنا ہے، اور اللہ تعالیٰ سے مانگنا عبادت ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 992   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1150  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کو پکار کر پوچھا: کیا ہم میں سے کوئی ایک کپڑے میں نماز پڑھ سکتا ہے؟ تو آپﷺ نے جواب دیا: کیا تم میں سے ہر ایک کے پاس دو کپڑے ہیں؟ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1150]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جس دور میں سائل نے آپﷺ سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے بارے میں سوال کیا تھا وہ انتہائی فقرواحتیاج کا دور تھا اور ہر انسان کے پاس اتنی سکت نہ تھی کہ وہ دو کپڑے پہنے اس لیے شریعت نے نماز کے لیے کپڑوں کی تحدید نہیں کی،
انسان کے پاس جس قدروسعت وگنجائش ہو یا جتنے کپڑے وہ پہنتا ہو انہیں میں نماز پڑھ لے ستر کو چھپانا ضروری ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1150   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 358  
358. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ سائل نے رسول اللہ ﷺ سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کی بابت دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: کیا تم میں سے ہر ایک کے پاس دو کپڑے ہوتے ہیں؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:358]
حدیث حاشیہ:
ایک ہی کپڑا جس سے ستر پوشی ہوسکے اس میں نماز جائزو درست ہے۔
جمہورامت کا یہی فتویٰ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 358   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:358  
358. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ سائل نے رسول اللہ ﷺ سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کی بابت دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: کیا تم میں سے ہر ایک کے پاس دو کپڑے ہوتے ہیں؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:358]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ کے سوال کا مقصد یہ ہے کہ تم دیکھتے نہیں ہو، ایک واضح اور بدیہی امر کے متعلق سوال کر رہے ہو، تمھیں سوچنا چاہیے تھا کہ اگر ایک کپڑے میں نماز جائز نہ ہوتی تو میں ضرور انکارکردیتا، لیکن نہ تو میں نے انکار کیا اور نہ اس معاملے کی تفتیش ہی کی کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنے والا فاقد ثوب ہے یا واجد ثوب، اس سلسلے میں وسعت اورتنگی کا فرق بھی نہیں۔
ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا جواز ہے، کیونکہ نماز میں کپڑوں کی تعداد پر انحصار نہیں، بلکہ مدار سترعورۃ پر ہے، البتہ مستحب ہے کہ بشرط گنجائش ایک سے زائد کپڑے استعمال کیے جائیں۔
علامہ خطابی ؒ فرماتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے سوالیہ انداز میں جواب دیا لیکن دراصل آپ تنگی کے ایام کی خبر دینا چاہتے ہیں اور فحوائے کلام سے اصل سوال کا جواب بھی سمجھاجاسکتا ہے کہ جب سترعورۃ واجب ہے اور نماز کا ادا کرنا بھی ضروری ہے اورتم میں سے ہر ایک کے لیے کپڑے بھی نہیں ہوتے، ایسے حالات میں تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایک کپڑے میں نماز جائز ہے۔
اگرجائز نہ ہوتی تو میں اس کی وضاحت کردیتا۔
(إعلام الحدیث: 349/1)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ایک دوسری روایت میں اضافہ ہے کہ حضرت عمر ؓ سے بھی کسی نے یہی سوال کیا تو انھوں نے فرمایا:
جب اللہ تعالیٰ نے لباس کے معاملے میں وسعت دی ہے تو انھیں بھی وسعت سے کام لینا چاہیے، وہ اس طرح کہ لوگ اپنے جسم پر اللہ کے دیے ہوئے کپڑے استعمال کریں، یعنی انھیں چاہیے کہ وہ ازار اور چادر میں ازاراورقمیص میں، ازار اورقبا میں، پائجامہ اور چادر میں، پائجامہ اور قمیص میں، پائجامہ اورقبا میں، جانگیہ اور قبا میں، نیز جانگیہ اور قمیص میں نما ز پڑھیں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں:
میں گمان کرتا ہوں کہ حضرت عمر ؓ نے اسی کے ساتھ جانگیہ اورچادر میں نماز پڑھنے کے متعلق بھی فرمایا تھا۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 365)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 358   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:359  
359. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے جبکہ اس کے کندھے پر کوئی چیز نہ ہو، یعنی شانے ننگے ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:359]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے اس باب میں نمازی کے لیے بحالت نماز سترپوشی کی ایک قسم بیان فرمائی ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کا حق ہے، کیونکہ نمازی کے لیے دوران نماز میں بسااوقات جسم کے کسی ایسے حصے کو چھپانا بھی ضروری ہوتا ہے جسے نماز کے علاوہ عام حالات میں ظاہر کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ بعض اوقات نماز میں کسی ایسے حصے کو ظاہر کرنا ہوتا ہے جسے عام حالات میں عورتوں کے لیے مردوں سے چھپانا ضروری ہوتا ہے۔
پہلی صورت کی مثال کندھے ہیں کہ بحالت نماز ان کا ڈھانپنا ضروری ہے۔
یہ حکم حق نماز کی وجہ سے ہے، جبکہ مرد حضرات عام حالات میں اپنے کندھوں کو ننگارکھ سکتے ہیں۔
دوسری صورت کی مثال چہرہ، ہاتھ اور پاؤں کا حکم ہے کہ عورت کے لیے عام حالات میں اجنبی مردوں کے سامنے ان کا کھولنا جائز نہیں، لیکن نماز کی حالت میں عورت کے لیے ان کا چھپانا ضروری نہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں اس نوعیت کی سترپوشی اللہ کاحق ہے اور یہی وجہ ہے کہ رات کی تاریکی میں تن تنہا بھی بیت اللہ کا عریاں ہوکر طواف نہیں کیاجاسکتا۔
جیسا کہ اکیلے آدمی کو اختیاری حالات میں ننگے ہوکر نماز پڑھنےکی اجازت نہیں۔
اس بحث کو امام ابن تیمیہ ؒ نے اپنے ایک رسالے میں بڑے خوبصورت اندازمیں پیش کیا ہے جس کا ہم نے اردو ترجمہ بعنوانمسلمان عورت کا پردہ اور اس کا لباسِ نماز کیاہے۔

حافظ ا بن حجر ؒ کہتے ہیں کہ نماز کی حالت میں کندھوں پر کپڑا ڈالنے کی تاکید جمہور کے نزدیک استحباب کے لیے ہے اورجن احادیث میں ممانعت ہے وہ کراہت تنزیہی پر محمول ہے، لیکن امام احمد ؒ سے ایک قول یہ منقول ہے کہ کندھوں پر کپڑا ڈالے بغیر نماز جائز نہیں، گویا انھوں نے اس کو شرط صحت صلاۃ قراردیاہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ نماز ہوجائے گی، لیکن ترک واجب کی وجہ سے گناہکار ہوگا۔
(فتح الباري: 611/1)
علامہ کرمانی ؒ کہتے ہیں کہ بظاہر ممانعت کا تقاضا تو تحریم ہی ہے مگر اجماع جواز ترک پر ہوچکاہے، کیونکہ اصل مقصود تو سترعورۃ ہے، وہ کسی بھی طریقے سے کیاجاسکتا ہے۔
(شرح الکرماني: 18/2)
علامہ کرمانیؒ کا یہ اجماع کا دعویٰ محل نظر ہے، کیونکہ امام احمد بن حنبل ؒ نے اس موقف سے اختلاف کیاہے۔
علامہ خطابی ؒ نے عدم وجوب پر اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک کپڑے میں نماز پڑھی جس کا ایک کنارہ کسی زوجہ محترمہ پر تھا اور وہ سورہی تھیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کپڑا اتنا بڑا نہیں تھا کہ کندھوں پر ڈالا جاسکتا اور نہ اتنا چھوٹا ہی تھا کہ اسے بطور تہہ بند ہی استعمال کیا جاسکتا۔
اگرکندھوں کا ڈھانپنا ضروری ہوتا تو دوسرے کنارے سے انھیں ڈھانپا جاسکتا تھا، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ کہ دوران نماز میں کندھوں کا ڈھانپنا ضروری نہیں۔
(إعلام الحدیث: 250/1)
حافظ ابن حجر ؒ خطابی ؒ کا استدلال ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ محل نظر ہے۔
(فتح الباري: 612/1)
بظاہر امام بخاری ؒ کے مسلک میں تفصیل ہے کہ کپڑاگربڑا ہوتو اسے کندھوں پر ڈالنا ضروری ہے اور اگرتنگ ہوتو اسے تہبند استعمال کیاجائے، کندھوں پر ڈالنا ضروری نہیں۔
ان کا موقف امام احمد ؒ کے موقف سے مختلف ہے۔
امام احمد ؒ کندھوں کے ڈھانپنے کو صحت صلاۃ کے لیے شرائط قراردیتے ہیں، جبکہ امام بخاری ؒ صرف وجوب کے قائل ہیں اور اس وجوب کو بھی تنگی کے وقت اٹھا دیتے ہیں۔
جیسا کہ آئندہ عنوان سے معلوم ہوتا ہے۔

علامہ کرمانی ؒ نے عنوان سے دوسری حدیث کی مطابقت بایں الفاظ بیان کی ہے کہ اس حدیث میں مخالفت طرفین کا حکم ہے اور اس پر عمل کرنا اسی وقت ممکن ہوگا جب کندھوں پر کچھ ڈالا جائے گا، اس کے بغیر مخالفت طرفین نہیں ہوسکتی۔
(شرح الکرماني: 19/2)
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے بھی تراجم بخاری میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے، فرماتے ہیں:
اس حدیث کی عنوان پر دلالت بایں طورہے کہ کپڑے کے دونوں کناروں کا ایک دوسرے کے مخالف سمت ہونا ہی اس بات کا سبب ہے کہ کوئی کنارہ اس کے کندھوں پر ضرور ڈالا جائےگا۔
حافظ ابن حجر ؒ جو امام بخاری ؒ کے رمزشناس ہیں، کہتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے حسب عادت اس انداز سے ایک روایت کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں مخالفت طرفین کے وقت کندھوں پر کپڑا ڈالنے کی صراحت ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو صرف ایک کپڑے میں نماز پڑھے اسے چاہیے کہ کندھوں پر کپڑا ڈال کر اس کے دونوں کناروں کو اُلٹ لے۔
(مسند احمد: 255/2)
علامہ اسماعیلی ؒ اور ابونعیم ؒ نے بھی حسین کے طریق سے اسی طرح بیا ن کیاہے۔
(فتح الباري: 611/1)
مختصر یہ ہے کہ جب کپڑا اس قدر وسیع ہوکہ ستر پوشی کے بعد کندھوں کو ڈھانپاجاسکتا ہو تو ایسا ہی کرنا چاہیے۔
اس کے برعکس اگر کپڑا تنگ ہو کہ کندھوں کو چھپانے کے بعد ستر کھلنے کا اندیشہ ہوتو ایسی حالت میں کندھوں کو کھلا رکھتے ہوئے تہ بند باندھ کر نماز پڑھ لینا بالاتفاق جائزہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 359   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:360  
360. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: جو شخص ایک کپڑے میں نماز پڑھے، اسے چاہئے کہ اس کے دونوں کناروں کو الٹ لے، یعنی اس کا دایاں کنارہ بائیں طرف اور بایاں کنارہ دائیں طرف ڈال لے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:360]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے اس باب میں نمازی کے لیے بحالت نماز سترپوشی کی ایک قسم بیان فرمائی ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کا حق ہے، کیونکہ نمازی کے لیے دوران نماز میں بسااوقات جسم کے کسی ایسے حصے کو چھپانا بھی ضروری ہوتا ہے جسے نماز کے علاوہ عام حالات میں ظاہر کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ بعض اوقات نماز میں کسی ایسے حصے کو ظاہر کرنا ہوتا ہے جسے عام حالات میں عورتوں کے لیے مردوں سے چھپانا ضروری ہوتا ہے۔
پہلی صورت کی مثال کندھے ہیں کہ بحالت نماز ان کا ڈھانپنا ضروری ہے۔
یہ حکم حق نماز کی وجہ سے ہے، جبکہ مرد حضرات عام حالات میں اپنے کندھوں کو ننگارکھ سکتے ہیں۔
دوسری صورت کی مثال چہرہ، ہاتھ اور پاؤں کا حکم ہے کہ عورت کے لیے عام حالات میں اجنبی مردوں کے سامنے ان کا کھولنا جائز نہیں، لیکن نماز کی حالت میں عورت کے لیے ان کا چھپانا ضروری نہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں اس نوعیت کی سترپوشی اللہ کاحق ہے اور یہی وجہ ہے کہ رات کی تاریکی میں تن تنہا بھی بیت اللہ کا عریاں ہوکر طواف نہیں کیاجاسکتا۔
جیسا کہ اکیلے آدمی کو اختیاری حالات میں ننگے ہوکر نماز پڑھنےکی اجازت نہیں۔
اس بحث کو امام ابن تیمیہ ؒ نے اپنے ایک رسالے میں بڑے خوبصورت اندازمیں پیش کیا ہے جس کا ہم نے اردو ترجمہ بعنوانمسلمان عورت کا پردہ اور اس کا لباسِ نماز کیاہے۔

حافظ ا بن حجر ؒ کہتے ہیں کہ نماز کی حالت میں کندھوں پر کپڑا ڈالنے کی تاکید جمہور کے نزدیک استحباب کے لیے ہے اورجن احادیث میں ممانعت ہے وہ کراہت تنزیہی پر محمول ہے، لیکن امام احمد ؒ سے ایک قول یہ منقول ہے کہ کندھوں پر کپڑا ڈالے بغیر نماز جائز نہیں، گویا انھوں نے اس کو شرط صحت صلاۃ قراردیاہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ نماز ہوجائے گی، لیکن ترک واجب کی وجہ سے گناہکار ہوگا۔
(فتح الباري: 611/1)
علامہ کرمانی ؒ کہتے ہیں کہ بظاہر ممانعت کا تقاضا تو تحریم ہی ہے مگر اجماع جواز ترک پر ہوچکاہے، کیونکہ اصل مقصود تو سترعورۃ ہے، وہ کسی بھی طریقے سے کیاجاسکتا ہے۔
(شرح الکرماني: 18/2)
علامہ کرمانیؒ کا یہ اجماع کا دعویٰ محل نظر ہے، کیونکہ امام احمد بن حنبل ؒ نے اس موقف سے اختلاف کیاہے۔
علامہ خطابی ؒ نے عدم وجوب پر اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک کپڑے میں نماز پڑھی جس کا ایک کنارہ کسی زوجہ محترمہ پر تھا اور وہ سورہی تھیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کپڑا اتنا بڑا نہیں تھا کہ کندھوں پر ڈالا جاسکتا اور نہ اتنا چھوٹا ہی تھا کہ اسے بطور تہہ بند ہی استعمال کیا جاسکتا۔
اگرکندھوں کا ڈھانپنا ضروری ہوتا تو دوسرے کنارے سے انھیں ڈھانپا جاسکتا تھا، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ کہ دوران نماز میں کندھوں کا ڈھانپنا ضروری نہیں۔
(إعلام الحدیث: 250/1)
حافظ ابن حجر ؒ خطابی ؒ کا استدلال ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ محل نظر ہے۔
(فتح الباري: 612/1)
بظاہر امام بخاری ؒ کے مسلک میں تفصیل ہے کہ کپڑاگربڑا ہوتو اسے کندھوں پر ڈالنا ضروری ہے اور اگرتنگ ہوتو اسے تہبند استعمال کیاجائے، کندھوں پر ڈالنا ضروری نہیں۔
ان کا موقف امام احمد ؒ کے موقف سے مختلف ہے۔
امام احمد ؒ کندھوں کے ڈھانپنے کو صحت صلاۃ کے لیے شرائط قراردیتے ہیں، جبکہ امام بخاری ؒ صرف وجوب کے قائل ہیں اور اس وجوب کو بھی تنگی کے وقت اٹھا دیتے ہیں۔
جیسا کہ آئندہ عنوان سے معلوم ہوتا ہے۔

علامہ کرمانی ؒ نے عنوان سے دوسری حدیث کی مطابقت بایں الفاظ بیان کی ہے کہ اس حدیث میں مخالفت طرفین کا حکم ہے اور اس پر عمل کرنا اسی وقت ممکن ہوگا جب کندھوں پر کچھ ڈالا جائے گا، اس کے بغیر مخالفت طرفین نہیں ہوسکتی۔
(شرح الکرماني: 19/2)
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے بھی تراجم بخاری میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے، فرماتے ہیں:
اس حدیث کی عنوان پر دلالت بایں طورہے کہ کپڑے کے دونوں کناروں کا ایک دوسرے کے مخالف سمت ہونا ہی اس بات کا سبب ہے کہ کوئی کنارہ اس کے کندھوں پر ضرور ڈالا جائےگا۔
حافظ ابن حجر ؒ جو امام بخاری ؒ کے رمزشناس ہیں، کہتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے حسب عادت اس انداز سے ایک روایت کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں مخالفت طرفین کے وقت کندھوں پر کپڑا ڈالنے کی صراحت ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو صرف ایک کپڑے میں نماز پڑھے اسے چاہیے کہ کندھوں پر کپڑا ڈال کر اس کے دونوں کناروں کو اُلٹ لے۔
(مسند احمد: 255/2)
علامہ اسماعیلی ؒ اور ابونعیم ؒ نے بھی حسین کے طریق سے اسی طرح بیا ن کیاہے۔
(فتح الباري: 611/1)
مختصر یہ ہے کہ جب کپڑا اس قدر وسیع ہوکہ ستر پوشی کے بعد کندھوں کو ڈھانپاجاسکتا ہو تو ایسا ہی کرنا چاہیے۔
اس کے برعکس اگر کپڑا تنگ ہو کہ کندھوں کو چھپانے کے بعد ستر کھلنے کا اندیشہ ہوتو ایسی حالت میں کندھوں کو کھلا رکھتے ہوئے تہ بند باندھ کر نماز پڑھ لینا بالاتفاق جائزہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 360   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:365  
365. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک آدمی کھڑا ہوا اور نبی ﷺ سے سوال کیا: آیا ایک کپڑے میں نماز پڑھی جا سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا تم میں سے سب کے پاس دو، دو کپڑے ہیں؟ پھر کسی شخص نے حضرت عمر ؓ سے یہی سوال کیا تو انھوں نے جواب دیا: جب اللہ تعالیٰ وسعت فرمائے تو اس وسعت کا اظہار کرو۔ چاہیے کہ لوگ اپنے جسم پر اللہ کے دیے ہوئے کپڑے استعمال کریں، یعنی ازار اور چادر میں، ازار اور قمیص میں، ازار اور قبا میں، پاجامہ اور چادر میں، پاجامہ اور قمیص میں، پاجامہ اور قبا میں، جانگھیے اور قبا میں، جانگھیے اور قمیص میں نماز پڑھیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں: میں گمان کرتا ہوں کہ حضرت عمر ؓ نے جانگھیے اور چادر میں ادائیگی نماز کے متعلق بھی فرمایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:365]
حدیث حاشیہ:

حضرت عمر ؓ کی کپڑوں کے متعلق بیان کردہ تفصیل میں ستر پوشی، پھر بدن پوشی کی رعایت مقدم معلوم ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ کپڑے جو وسط جسم کے ستر کے لیے استعمال ہوتے ہیں انھیں آپ نے پہلے بیان فرمایا، کیونکہ جسم کے جس حصے کا سترضروری ہے وہ وسط جسم ہی ہے، پھر جو کپڑے وسط جسم کی حفاظت کے لیے استعمال ہوتے ہیں وہ تین ہیں:
ازار، پاجامہ اور جانگیہ۔
ان تینوں میں سے ازار کو سب سے پہلے رکھا، یہ کثیر الاستعمال بھی ہے اور جسم کے لیے ساتربھی۔
گویا آپ نے سترعورۃ کے لحاظ سے کپڑوں کے تین درجے بتائے ہیں:
پہلے ازار، پھرپاجامہ، آخر میں جانگیے اس لیے رکھا کہ اس میں سترسب سے کم ہے، ہاں اگرچادریاقمیص کے ساتھ اس کااستعمال ہوتو چنداں حرج نہیں۔
مطلب یہ ہے کہ اگرنمازی دوکپڑوں میں نماز پڑھے توتہ بند کے ساتھ اوپر کے جسم کے لیے چادر، کرتایا قبا بھی ہو، اگرپاجامے کے ساتھ پڑھے تو اس کے ساتھ بھی چادر یا کرتا یا قبا ہو۔
اگرجانگیے پہنے ہوئے ہوتواس کے ساتھ چادر یاکرتایا قبا ہوتا کہ سترپوشی کی رعایت زیادہ سے زیادہ ہوسکے۔
(فتح الباري: 617/1)
حافظ ابن حجر ؒ نےلکھاہے کہ نماز کے وقت کپڑوں کا اہتمام ضروری ہے۔
جیساکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے اورایک کپڑے میں نماز پڑھنا صرف تنگی اور افلاس کے وقت ہے۔
وہ کپڑوں میں نماز پڑھنا بہ نسبت ایک کپڑے کے افضل ہے۔
اگرچہ قاضی عیاض ؒ نے اس کےمتعلق اختلاف کی نفی کی ہے، تاہم ابن منذر ؒ کی عبارت سے اختلاف کا ثبوت ملتا ہے۔
انھوں نے ائمہ سے ایک کپڑے میں جواز صلاۃ کا کرکے لکھاہے کہ بعض حضرات نے دوکپڑوں میں نماز کو مستحب قراردیاہے، مگر اشبب کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر کوئی قدرت ووسعت کے باوجود صرف ایک کپڑے میں نماز پڑھے گا تو وقت کے دوران میں اسکا اعادہ کرنا ہوگا ہاں اگروہ کپڑا موٹا ہوتو اعادے کی ضرورت نہیں اور بعض حنفیہ نے بھی شخص مذکور کی نماز کومکروہ کہا ہے۔
(عمدة القاري: 286/3)

مصنف عبدالرزاق (356/1)
میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ایک کپڑے میں نماز کو مکروہ کہتے تھے اور اس کی اجازت کو اسلام کے ابتدائی دورمیں تنگی کے وقت پرمحمول کرتے تھے۔
جب لوگوں کو زیادہ کپڑے میسر نہ تھے۔
حضرت ابی بن کعب ؓ اس کے خلاف ایک کپڑے میں نماز کومکروہ نہیں کہتے تھے۔
ان دونوں حضرات کے اختلاف کو سن کر حضرت عمر ؓ منبر پرکھڑے ہوئے اور اعلان فرمایا کہ درست بات وہی ہے جو حضرت ابی بن کعب ؓ فرماتے ہیں نہ کہ وہ جو حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 365   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.