952 - حدثنا الحميدي قال: سفيان ثنا، قال: ثنا داود بن قيس الفراء، عن عبيد الله بن عبد الله بن اقرم الخزاعي، عن ابيه، قال: «رايت رسول الله صلي الله عليه وسلم بالقاع من نمرة يصلي، فرايت بياض إبطيه إذا سجد» 952 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: سُفْيَانُ ثنا، قَالَ: ثنا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ الْفَرَّاءُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَقْرَمَ الْخُزَاعِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقَاعِ مِنْ نَمِرَةَ يُصَلِّي، فَرَأَيْتُ بَيَاضَ إِبِطَيْهِ إِذَا سَجَدَ»
952-عبید اللہ بن عبداللہ اپنے والد کایہ بیان نقل کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ”نمرہ“ میں کھلی جگہ پر نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دیکھ لی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 831، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1107، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 699، والترمذي فى «جامعه» برقم: 274، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 881، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2752، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16663، 16664، 16665، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 2923، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 2657، والطبراني فى «الكبير» برقم: 15051»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:952
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سجدہ میں بازؤوں کو کھول کر رکھنا چاہیے، نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ نماز میں اگر بغلیں ننگی بھی ہو جائیں تو نماز نہیں ٹوٹتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلیں مبارک سفید تھیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 951
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث881
´نماز میں سجدے کا بیان۔` عبداللہ بن اقرم خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک بار اپنے والد کے ساتھ نمرہ کے میدان میں تھا کہ ہمارے پاس سے کچھ سوار گزرے، انہوں نے راستے کی ایک جانب اپنی سواریوں کو بٹھایا، مجھ سے میرے والد نے کہا: تم اپنے جانوروں میں رہو تاکہ میں ان لوگوں کے پاس جا کر ان سے پوچھوں (کہ کون لوگ ہیں)، وہ کہتے ہیں: میرے والد گئے، اور میں بھی قریب پہنچا تو دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں، میں نماز میں حاضر ہوا اور ان لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی، جب جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جاتے میں آپ کی دونوں بغلوں کی سفیدی کو دیکھتا تھا ۲؎۔ ابن ماجہ ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 881]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) سفر کے دوران میں رستے میں ٹھرنا پڑے تو سڑک پر ٹھرنے کی بجائے نیچے اتر کر ایک طرف ٹھرنا چاہیے۔
(2) صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کی نظر میں نماز باجماعت کی اہمیت اس قدر زیادہ تھی کہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بکریوں کو اپنی جگہ چھوڑ کرنماز باجماعت میں شرکت کی۔
(3) رسول اللہ ﷺ نے سجدہ کرتے وقت بازؤں کو پہلوئوں سے ملا کر نہیں رکھا۔ اس لئے صحابہ رضوان للہ عنہم اجمعین کو نبی کریمﷺ کی بغلیں اچھی طرح نظر آ گیئں۔
(2) بغلوں کی سفیدی کےلئے (عفرۃ) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد ایسا سفید رنگ ہے۔ جس میں سیاہی کی ہلکی سی آمیزش ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کی جلد مبارک کا رنگ بالکل سفید تھا۔ اور بالوں کے اگتے ہوئے سرے سیاہ رنگ کے تھے۔ ان دونوں کے ملنے سے بغلوں کا رنگ سیاہی مائل سفید نظرآیا۔
(5) بغلوں کے بال اکھاڑنا مسنون ہے۔ جب بال اتنے چھوٹے ہوں کہ اکھاڑنا مشکل ہو اسوقت جس کے سفید رنگ سے مل کر مذکورہ بالا کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔ اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ بال بہت بڑھے ہوئے نہیں تھے۔ ورنہ عفرہ (خاکستری رنگ) کے بجائےسواد (سیاہی) کا لفظ بولا جاتا۔ صفائی کا تقاضا یہ ہے کہ جسم کے غیر ضروری بال مناسب حد سے زیادہ نہ بڑھنے دیئے جایئں بروقت صفائی کرلی جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 881