388 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا ابن جريج قال سمعت ابا سعد الاعمي يحدث عطاء بن ابي رباح يقول: خرج ابو ايوب إلي عقبة بن عامر وهو بمصر يساله عن حديث سمعه من رسول الله صلي الله عليه وسلم لم يبق احد سمعه من رسول الله صلي الله عليه وسلم غيره وغير عقبة فلما قدم اتي منزل مسلمة بن مخلد الانصاري وهو امير مصر فاخبر به فعجل فخرج إليه فعانقه، ثم قال: ما جاء بك يا ابا ايوب؟ فقال: حديث سمعته من رسول الله صلي الله عليه وسلم لم يبق احد سمعه من رسول الله صلي الله عليه وسلم غيري وغير عقبة فابعث من يدلني علي منزله قال فبعث معه من يدله علي منزل عقبة فاخبر عقبة به فعجل فخرج إليه فعانقه وقال ما جاء بك يا ابا ايوب؟ فقال حديث سمعته من رسول الله صلي الله عليه وسلم لم يبق احد سمعه غيري وغيرك في ستر المؤمن قال عقبة نعم سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول: «من ستر مؤمنا في الدنيا علي خزيه ستره الله يوم القيامة» فقال له ابو ايوب: صدقت، ثم انصرف ابو ايوب إلي راحلته فركبها راجعا إلي المدينة فما ادركته جائزة مسلمة بن مخلد إلا بعريش مصر388 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعْدٍ الْأَعْمَي يُحَدِّثُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ يَقُولُ: خَرَجَ أَبُو أَيُّوبَ إِلَي عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَهُوَ بِمِصْرَ يَسْأَلُهُ عَنْ حَدِيثٍ سَمِعَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَبْقَ أَحَدٌ سَمِعَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَهُ وَغَيْرَ عُقْبَةَ فَلَمَّا قَدِمَ أَتَي مَنْزِلَ مَسْلَمَةَ بْنِ مَخْلَدٍ الْأَنْصَارِيِّ وَهُوَ أَمِيرُ مِصْرَ فَأُخْبِرَ بِهِ فَعَجَّلَ فَخَرَجَ إِلَيْهِ فَعَانَقَهُ، ثُمَّ قَالَ: مَا جَاءَ بِكَ يَا أَبَا أَيُّوبَ؟ فَقَالَ: حَدِيثٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَبْقَ أَحَدٌ سَمِعَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرِي وَغَيْرَ عُقْبَةَ فَابْعَثْ مَنْ يَدُلُّنِي عَلَي مَنْزِلِهِ قَالَ فَبَعَثَ مَعَهُ مَنْ يَدُلُّهُ عَلَي مَنْزِلِ عُقْبَةَ فَأُخْبِرَ عُقْبَةُ بِهِ فَعَجَّلَ فَخَرَجَ إِلَيْهِ فَعَانَقَهُ وَقَالَ مَا جَاءَ بِكَ يَا أَبَا أَيُّوبَ؟ فَقَالَ حَدِيثٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَبْقَ أَحَدٌ سَمِعَهُ غَيْرِي وَغَيْرَكَ فِي سَتْرِ الْمُؤْمِنِ قَالَ عُقْبَةُ نَعَمْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ سَتَرَ مُؤْمِنًا فِي الدُّنْيَا عَلَي خِزْيِهِ سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» فَقَالَ لَهُ أَبُو أَيُّوبَ: صَدَقْتَ، ثُمَّ انْصَرَفَ أَبُو أَيُّوبَ إِلَي رَاحِلَتِهِ فَرَكِبَهَا رَاجِعًا إِلَي الْمَدِينَةِ فَمَا أَدْرَكَتْهُ جَائِزَةُ مَسْلَمَةَ بْنِ مَخْلَدٍ إِلَّا بَعَرِيشِ مِصْرَ
388- عطاء بن ابی رباح بیان کرتے ہیں: سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ، سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ وہ اس وقت مصر میں تھے۔ انہوں نے ان سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا، جو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی تھی اور اب کوئی بھی ایسا شخص باقی نہیں رہا تھا جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی وہ حدیث سنی ہو۔ صرف سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ نے وہ حدیث سنی ہوئی تھی۔ جب سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ مصر آئے تو مسلمہ بن مخلد انصاری کے گھر ٹھہرے، جو مصر کا امیر تھا۔ اسے اس بارے میں بتایا گیا، تو وہ تیزی سے نکل کر ان کے پاس آیا۔ اس نے ان کے ساتھ معانقہ کیا، پھر بولا: اے ابوایوب انصاری (رضی اللہ عنہ)! آپ کیوں تشریف لائے ہیں؟ تو سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے بتایا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ایک حدیث سنی تھی، اب میرے اور عقبہ بن عامر کے علاوہ ایسا کوئی شخص نہیں رہا، جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی وہ حدیث سنی ہو، تو تم کسی ایسے شخص کو میرے ساتھ بھیجو جو مجھے ان کے گھر تک پہنچا دے۔ راوی کہتے ہیں: تو امیر نے سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے ہمراہ اس شخص کو بھیجا جو انہیں سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے گھر تک پہنچا دے۔ جب سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ کو ان کے بارے میں پتہ چلا تو وہ تیزی ے نکل کر بار آئے اور ان سے گلے ملے اور دریافت کیا: اے ابوایوب(رضی اللہ عنہ)! آپ کیوں تشریف لائے ہیں؟ تو انہوں نے بتایا: میں نے ایک حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی تھی اب میرے اور آپ کے علاوہ ایسا کوئی شخص باقی نہیں رہا، جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ حدیث سنی ہو اور وہ حدیث مؤمن کی پردہ داری کے بارے میں ہے، تو سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ بولے: جی ہاں! میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص دنیا میں کسی مؤمن کی خامی کی پردہ پوشی کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔“، تو سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: آپ نے سچ بیان کیا ہے، پھر سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ واپس اپنی سواری کی طرف آئے اس پر سوار ہوئے اور واپس مدینہ آگئے۔ مسلمہ بن مخلد کی مہمانی مصر کے شہر عریش میں ہی تھی کہ آپ واپس بھی آگئے۔ (یعنی وہ مہمانداری کرنے کا ارادہ کررہا تھا)
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1164، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2114، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3634، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2875، 2876، 2877، 2878، 2879، 2880، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2433، والترمذي فى «جامعه» برقم: 759، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1795، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1716، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8521، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24016، 24039»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:388
فائدہ: اس سے ثابت ہوا کہ سفر سے آئے ہوئے مہمان کے ساتھ معانقہ کرنا چاہئے، اور مہمان کا ہر لحاظ سے احترام و اکرام کرنا چاہیے، نیز اس حدیث سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حدیث کی خاطر محنت و جستجو کی انتھک محنت کا ثبوت ملتا ہے۔ اسی طرح محدثین نے بھی ایک ایک حدیث کی خاطر کئی کئی ہزارمیلوں کا سفر طے کیا، راقم نے محدثین کے اس طرح کے واقعات اپنی قیمتی کتاب ”نصیحتیں میرے اسلاف کی“ میں درج کیے ہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 388
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2433
´شوال کے چھ روزوں کا بیان۔` ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد چھ روزے شوال کے رکھے تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے۔“[سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2433]
فوائد ومسائل: (1) اس حدیث میں شش عیدی روزوں کی فضیلت و استحباب کا بیان ہے۔ اور جائز ہے کہ یہ عید کے بعد فورا مسلسل رکھ لیے جائیں یا اس مہینے میں متفق طور پر رکھے جائیں۔
(2) زمانہ بھر یعنی سال بھر کے روزون کا ثواب اس طرح واضح کیا جاتا ہے کہ حسب قاعدہ (مَن جَآءَ بِٱلْحَسَنَةِ فَلَهُۥ عَشْرُ أَمْثَالِهَا)(الانعام:160) رمضان کے تیس اور شوال کے چھ دن کل چھتیس دن ہوئے اور دس گنا ثواب سے تین سو ساٹھ ہو گئے اور تقریبا یہی تعداد سال کے دنوں کی ہوتی ہے۔ واللہ اعلم.
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2433
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1716
´ماہ شوال کے چھ روزوں کا بیان۔` ابوایوب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان کا روزہ رکھا، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے، تو وہ پورے سال روزے رکھنے کے برابر ہو گا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1716]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) یہ مسلمانو ں پر اللہ کا خاص احسان ہے کہ اس کی رضا کے لئے جو عمل کیا جائے اس کا ثواب بہت زیادہ دیتا ہے اس رحمت الہی سے فا ئدہ اٹھانے کے لئے فرضی عبادت کے ساتھ ساتھ نفلی عبادات بھی ادا کرتے رہنا چاہیے- (2) اکثر علماء کا خیال ہے کہ یہ روزے عید کے دوسرے دن سے شروع کرنا ضروری نہیں اور مسلسل رکھنا بھی ضروری نہیں تا ہم ساتھ ہی رکھ لینے میں آسانی ہے (3) بعض جگہ عوام میں مشہور ہے کہ عید کے بعد چھ روزے رکھ کر شوال کی آ ٹھ تاریخ کو بھی عید ہوتی ہے بعض لوگ اس دن کچھ اہتمام بھی کرتے ہیں یہ خیال بے اصل ہے لہٰذا اس سے اجتناب کر نا چاہیے (4) زمانے بھر یعنی سال بھر کے روزو ں کا ثواب اس طرح واضح کیا جا تا ہے کہ حسب قا عدہ ﴿مَن جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُۥ عَشْرُ أَمْثَالِهَا ۖ﴾(الأنعام: 160، 6) رمضان کے تیس شوال کے چھ دن کل چھتیس دن ہو ئے اور دس گناہ ثواب سے تین سو ساٹھ ہو گئے اور تقریبا یہی تعداد سا ل کے دنوں کی ہو تی ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1716
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 759
´شوال کے چھ دن کے روزوں کا بیان۔` ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہی صوم الدھر ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 759]
اردو حاشہ: 1؎: ”ایک نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا ہے“ کے اصول کے مطابق رمضان کے روزے دس مہینوں کے روزوں کے برابر ہوئے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے اگر رکھ لیے جائیں تو یہ دو مہینے کے روزوں کے برابر ہوں گے، اس طرح اسے پورے سال کے روزوں کا ثواب مل جائے گا، جس کا یہ مستقل معمول ہو جائے اس کا شمار اللہ کے نزدیک ہمیشہ روزے رکھنے والوں میں ہو گا، شوّال کے یہ روزے نفلی ہیں انہیں متواتر بھی رکھا جا سکتا ہے اور ناغہ کر کے بھی، تاہم شوّال ہی میں ان کی تکمیل ضروری ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 759
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:386
386- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:386]
فائدہ: اس حدیث میں شوال کے چھ روزوں کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے، بعض کا ان روزوں کو مکر وہ سمجھنا باطل ہے، امام مالک کو شوال کے روزوں کی مشروعیت پر دلالت کر نے والی احادیث نہیں پہنچی تھیں، اگر انھیں احادیث پہنچیں تو وہ بھی اس کی مشروعیت کا فتوی دیتے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 386
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2758
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ عمل ہمیشہ روزے رکھنے کی مثل (برابر) ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:2758]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے عید الفطر کے بعد یہ چھ روزے پے در پے اور متصل رکھے جائیں، اگرچہ جائز یہ بھی ہے کہ ماہ شوال کے اندر اندر جب چاہے اور جیسے چاہے رکھ لیے جائیں، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، اور محدثین کے نزدیک یہ روزے رکھنے چائیں تاکہ صوم الدہر کا ثواب مل سکے، رمضان کا مہینہ 29 کا ہو تب بھی اللہ کے فضل وکرم سے ثواب 30 روزوں کا ہی ملتا ہے اور شوال کے چھ نفلی روزے ملا کرتعداد 36 ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے کریمانہ اصول اور ایک نیکی کا ثواب دس گنا کے مطابق 36 کا دس گنا 360 ہوگا اور قمری سال کے دن تین سوساٹھ 360 سے کم ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے جس نے ماہ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ نفلی روزے رکھے، وہ اس حساب سے 360 روزوں کے اجروثواب کا مستحق ہو گا۔ لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ روزے مکروہ ہیں۔ امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک متصلاً رمضان کے فوراً بعد مکروہ ہیں لیکن بعد میں الگ جائز ہیں۔ جبکہ متاخرین مالکیہ اور احناف جواز کے قائل ہیں۔ ابن رشد اور ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تصریح کی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2758
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، سنن ترمذی 759
ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہی صوم الدھر ہے“ ... [سنن ترمذي 759]
صحیح الاقوال فی استحباب صیام ستۃ من شوال
شوال کے چھ روزے صحیح و صریح احادیث سے ثابت ہیں لیکن حال ہی میں کراچی کے مفتی زرولی خان دیوبندی نے ”احسن المقال فی کراہیۃ صیام ستۃ شوال“(شوال کے چھ روزوں کے مکروہ ہونے کی تحقیق) نامی کتابچہ لکھ کر عوام میں یہ تأثر پھیلانے کی ناکام کوشش کی ہے کہ یہ احادیث غیر صحیح اور غیر صریح ہیں۔ فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ (رحمہ اللہ) نے بروقت قلم اُٹھا کر مفتی صاحب کی تحریر کا زبردست محاسبہ کیا ہے بلکہ ساتھ ہی صحیح مؤقف کی وضاحت بھی فرما دی ہے۔ جزاہ اللہ خیراً / حافظ ندیم ظہیر «الحمدللّٰه رب العالمين والصلٰوة والسلام علٰي رسوله الأمين، أمابعد:»
سیدنا ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ»
جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد اس نے شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ہمیشہ روزے رکھنے (کے ثواب) کی طرح ہیں۔ (صحیح مسلم: 1164، دارالسلام: 2758، صحیح ابن خزیمہ:2114، صحیح ابن حبان:3626/3634، صحیح ابی عوانہ:القسم المفقود ص 94، 95، سنن الترمذی:759 وقال: ”حدیث حسن صحیح“ شرح السنۃ للبغوی 6/ 331 ح 1780، وقال: ”ھذا حدیث صحیح“)
اس حدیث کو درج ذیل اماموں نے صحیح قرار دیا ہے:
1- امام مسلم
2- امام ابن خزیمہ
3- امام ترمذی
4- حافظ ابو عوانہ
5- حافظ ابن حبان
6- حافظ حسین بن مسعود البغوی
رحمہم اللہ
میرے علم کے مطابق کسی امام سے اس روایت کو ضعیف قرار دینا ثابت نہیں ہے۔
اب اس حدیث کے راویوں کا مختصرو جامع تذکرہ پیشِ خدمت ہے:
1: سیدنا ابو ایوب خالد بن زید الانصاری رضی اللہ عنہ مشہور بدری صحابی ہیں جو (دورِ صحابہ کے آخری) غزوہ ٔ قسطنطنیہ میں 50ھ یا اس کے بعد فوت ہوئے۔
2: عمر بن ثابت بن الحارث الخزرجی الانصاری المدنی رحمہ اللہ
حافظ ابن حبان نے آپ کو کتاب الثقات (5/ 149) میں ذکر کیا۔
امام عجلی نے کہا: مدنی تابعی ثقہ (تاریخ العجلی: 1333)
ابن شاہین نے انھیں کتاب اسماء الثقات (693) میں ذکر کیا۔
امام مسلم، امام ترمذی، امام ابن خزیمہ، حافظ ابو عوانہ اور حافظ بغوی نے ان کی حدیث کو صحیح قرار دے کر ان کی توثیق کی ہے۔
حافظ ابن حجر نے کہا:ثقہ (تقریب التہذیب: 4780) فائدہ: اگر کوئی محدث کسی حدیث کو (مطلقاً) صحیح کہے تو یہ اس کی طرف سے اس حدیث کے ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے۔
1: ابن القطان الفاسی (متوفی628ھ) لکھتے ہیں: ”وفي تصحیح الترمذي إیاہ توثیقھا وتوثیق سعد بن إسحاق ولایضر الثقۃ أن لایروي عنہ إلا واحد، واللہ أعلم“
اس حدیث کو ترمذی کا صحیح کہنا اس (زینب بنت کعب) اور سعد بن اسحاق کی توثیق ہے۔ ثقہ کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا کہ اُس سے روایت کرنے والا صرف ایک ہے۔ واللہ اعلم (بیان الوہم والایہام فی کتاب الاحکام ج 5 ص 395 ح 2562، نصب الرایہ للزیلعی 3/ 264)
2: تقی الدین بن دقیق العید نے کتاب الامام میں کہا: ”وأي فرق بین أن یقول: ھو ثقۃ أو یصحح لہ حدیث انفردبہ“
اس میں کیا فرق ہے کہ راوی کو ثقہ کہے یا اس کی منفردحدیث کو صحیح کہے۔ (نصب الرایہ ج 1 ص 149)
جمہور کی اس توثیق کے مقابلے میں عمر بن ثابت تابعی رحمہ اللہ پر کسی محدث کی جر ح ثابت نہیں ہے اور اگر ایک دو سے جرح ثابت بھی ہو جاتی تو جمہور کی توثیق کے مقابلے میں مردود تھی۔
تنبیہ نمبر 1: عمر بن ثابت نے یہ روایت سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے سنی ہے۔ دیکھئے صحیح مسلم: 1164، ترقیم دارلسلام: 2759، 2760
تنبیہ نمبر2: محمد زرولی دیوبندی تقلیدی نے بغیر کسی دلیل کے لکھا ہے:”اور طبرانی کی روایت میں عمر بن ثابت ہے اور وہ ضعیف ہے۔“(احسن المقال فی کراہیۃ صیام ستۃ شوال ص 26)
زرولی تقلیدی کا یہ قول امام مسلم، امام عجلی اور امام ترمذی وغیرہم کی تو ثیق کے مقابلے میں مردود ہے۔
زرولی نے روایتِ مذکورہ کے بارے میں لکھا ہے: ”جبکہ خود امام ترمذیؒ نے اس کو صحیح کے بجائے صرف حسن درجہ کا تسلیم کیا ہے۔“(احسن المقال ص 25)
حالانکہ امام ترمذی نے ”حدیث أبي أیوب حدیث حسن صحیح“ لکھا ہے۔ دیکھئے سنن الترمذی مع العرف الشذی (ج 1 ص 158) دوسرا نسخہ (ج 1 ص 94) معارف السنن (ج 5 ص 444) تحفۃ الاحوذی (ج 2 ص 59)
سنن ترمذی کے بعض نسخوں میں حسن کا لفظ بھی ہے۔ واللہ اعلم
عمر بن ثابت رحمہ اللہ سے یہ حدیث درج ذیل راویوں نے بیان کر رکھی ہے:
1: سعد بن سعید بن قیس (صحیح مسلم: 1164/2758، سنن التر مذی: 759 وقال: ”حسن صحیح“ صحیح ابن خزیمہ: 2114، صحیح ابن حبان: 3634، شرح السنۃللبغوی: 1780، وقال: ”ھذا حدیث صحیح“ وغیرہ)
2: صفوان بن سلیم (مسند الحمیدی بتحقیقی: 383، نسخہ دیوبند یہ: 380)
3: زید بن اسلم (مشکل الآثار للطحاوی: 2343)
4: یحییٰ بن سعید بن قیس الانصاری (مسند الحمیدی: 382، مشکل الآثار: 2346)
سعد بن قیس مختلف فیہ راوی ہیں، امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین اور امام نسائی وغیرہ نے اُن پر جرح کی ہے لیکن امام مسلم، امام عجلی، ابن سعد، ابن عدی، ابن حبان اور امام ابن خزیمہ وغیرہ جمہور نے اُن کی توثیق کی ہے۔
حافظ ذہبی لکھتے ہیں: ”أحد الثقات“ وہ ثقہ راویوں میں سے ایک ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء 5/ 482)
ایسا راوی جس کی جمہور محدثین نے توثیق کی ہو وہ حسن الحدیث کے درجے سے کم نہیں ہوتا لہٰذا سعد بن سعید بن قیس حسن الحدیث ہیں۔
تین ثقہ راویوں نے ان کی متابعت کر رکھی ہے:
صفوان بن سلیم (ثقہ مفتی عابد، رمی بالقدر) زید بن اسلم (ثقہ عالم) اور یحییٰ بن سعید الانصاری (ثقہ ثبت)۔
لہٰذا سعد بن سعید پر تفرد کا الزام باطل ہے۔
صفوان بن سلیم کی روایت درج ذیل کتابوں میں صحیح سند سے موجود ہے:
مسند الحمیدی (بتحقیقی: 383 وسندہ صحیح) سنن ابی داود (2433) السنن الکبریٰ للنسائی (2/ 163 ح 2863) سنن الدارمی (1761) صحیح ابن خزیمہ (2114) صحیح ابن حبان (الاحسان: 3626/3634) شرح مشکل الآثار للطحاوی (6/ 123 ح 2344) المعجم الکبیر للطبرانی (4/ 135، 136 ح 3911)
صفوان بن سلیم کے شاگرد عبد العزیز بن محمد الدراوردی جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق اور صحیح مسلم کے راوی ہیں۔
سنن ابی داود (353) کی ایک روایت کو حافظ ابن حجر نے حسن قرار دیا ہے جس میں دراوردی ہیں۔
اور نیموی تقلیدی نے آثار السنن (908 حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ) میں اسے نقل کر کے خاموشی اختیار کی ہے۔
حافظ ابن حبان اور امام ابن معین وغیرہما نے ان کی تو ثیق کی ہے۔
معتدل امام عجلی رحمہ اللہ نے فرمایا: ”مدني ثقۃ“(التاریخ للعجلی: 1114)
زید بن اسلم کی روایت درج ذیل کتاب میں صحیح سند سے موجود ہے:
شرح مشکل الآثار (2343 وسندہ صحیح)
اس میں عبد العزیز بن محمد الدراوردی ثقہ صدوق ہیں، ان کے شاگرد سعید بن منصور ثقہ حافظ ہیں اور ان کے شاگرد یوسف بن یزید بن کامل القراطیسی ثقہ ہیں۔ دیکھئے تقریب التہذیب (7893)
یحییٰ بن سعید بن قیس الانصاری کی روایت درج ذیل کتابوں میں حسن سند سے موجود ہے:
السنن الکبریٰ للنسائی (2866 وقال: ”عتبہ ھذا لیس بالقوی“) مشکل الآثار (2346) المعجم الکبیر للطبرانی (4/ 136 ح 3915) مسند الحمیدی (384)
یحییٰ بن سعید الانصاری سے یہ حدیث دو راویوں نے بیان کی ہے:
1: عبد الملک بن ابی بکر (بن عبدالرحمٰن بن الحارث بن ہشام) ثقہ ہیں۔ (تقریب التہذیب: 4167)
دیکھئے السنن الکبریٰ للنسائی (2866 وتکلم فی عتبہ بن ابی حکیم)
عبدالملک بن ابی بکر سے یہ حدیث عتبہ بن ابی حکیم نے بیان کی ہے۔
عتبہ بن ابی حکیم مختلف فیہ راوی ہیں لیکن جمہور محدثین نے ان کی توثیق کی ہے لہٰذا ان پر امام نسائی کی جرح صحیح نہیں ہے۔
تحریر تقریب التہذیب میں لکھا ہوا ہے: ”بل: صدوق حسن الحدیث……“ بلکہ وہ صدوق حسن الحدیث ہیں۔ (2/ 429 ت 4427)
لہٰذا یہ سند حسن ہے۔
2: اسماعیل بن ابراہیم (بن میمون) الصائغ (مسند الحمیدی: 384)
حافظ ابن حبان نے اس کی توثیق کی ہے۔
لیکن صاحبِ لسان نے امام بخاری سے ”سکتوا عنہ“(یہ متروک ہے) کی جرح نقل کی ہے۔ دیکھئے لسان المیزان (1/ 391، دوسرا نسخہ 1/ 601)
یہ جرح امام بخاری سے باسند صحیح ثابت نہیں ہے۔ مثلاً دیکھئے التاریخ الکبیر (1/ 341)
اسماعیل بن ابراہیم سے ایک جماعت نے روایت بیان کی ہے اور ابو حاتم الرازی نے کہا: ”شیخ“(الجرح والتعدیل 2/ 152)
خلاصہ یہ ہے کہ یہ راوی مجہول الحال ہے لہٰذا یہ سند ضعیف ہے لیکن شواہد کے ساتھ حسن وصحیح ہے۔
اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ سیدنا ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث جس میں شوال کے چھ روزوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے، بلحاظِ سند صحیح ہے۔
دوسری حدیث:
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((صیام شھر بعشرۃ أشھر وستۃ أیام بعدھن بشھرین فذلک تمام سنۃ ……))
یعني شھر رمضان و ستۃ أیام بعدہ۔
رمضان کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں اور اس کے بعد چھ روزے دو مہینوں کے برابر ہیں، اس طرح سے پورے سال کے روزے بنتے ہیں۔ (سنن الدارمی: 1762 وسندہ صحیح، سنن ابن ماجہ: 1715، صحیح ابن خزیمہ: 2115، صحیح ابن حبان: 3635، السنن الکبریٰ للنسائی: 2861، مسند احمد 5/ 280، وغیرہ)
اس حدیث کو ابن خزیمہ اور ابن حبان وغیرہما نے صحیح قرار دیا ہے۔
اب اس کے راویوں کا تذکرہ پیشِ خدمت ہے:
1: سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں۔
2: ابو اسماء عمرو بن مرثد الرحبی صحیح مسلم کے راویوں میں سے اور ثقہ ہیں۔ دیکھئے تقریب التہذیب (5109)
3: یحییٰ بن الحارث الذماری ثقہ ہیں۔ (تقریب التہذیب 7522)
4: یحییٰ بن حمزہ بن واقد الحضرمی الدمشقی القاضی صحیحین کے راوی اور ”ثقۃ رُمي بالقدر“ ہیں۔ دیکھئے تقریب التہذیب (7536)
جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ راوی پر قولِ راجح میں رُمی بالقدر والی جرح مردود ہوتی ہے۔
5: یحییٰ بن حسان التنیسی صحیحین کے راوی اور ثقہ ہیں۔ دیکھئے تقریب التہذیب (7529)
معلوم ہوا کہ یہ سند صحیح ہے لہٰذا اس کے ساتھ سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ والی حدیث اور بھی صحیح ہوجاتی ہے۔ والحمدللہ
ان دو حدیثوں سے ثابت ہو گیا ہے کہ شوال کے چھ روزے رکھنا بڑے ثواب کا کام ہے اور زرولی دیوبندی تقلیدی کا انھیں ضعیف قرار دینا اور شوال کے چھ روزوں کو مکروہ سمجھنا باطل و مردود ہے۔
امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”أنبا محمد بن عبداللہ بن عبد الحکم قال: حدثنا أبو عبدالرحمٰن المقرئ قال: حدثنا شعبۃ بن الحجاج عن عبدربہ بن سعید عن عمر بن ثابت عن أبي أیوب الأنصاري أنہ قال: من صام شھر رمضان ثم أتبعہ ستۃ أیام من شوال فکأنما صام السنۃ کلھا“
ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ نے فر مایا: جو شخص رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو گویا اس نے سارا سال روزے رکھے۔ (السنن الکبریٰ للنسائی 2/ 163، 164 ح 2865)
اس موقوف روایت کی سند صحیح ہے۔
عبدربہ بن سعید بن قیس ثقہ اور صحیحین کے راوی ہیں۔ دیکھئے تقریب التہذیب (3786) اور ان تک سند صحیح ہے۔
معلوم ہوا کہ مرفوع حدیث کے ساتھ ان روزوں کی فضیلت آثار صحابہ سے بھی ثابت ہے۔
تنبیہ نمبر 1: سارا سال روزے رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کو سارا سال روزے رکھنے کا ثواب ملتاہے۔
تنبیہ نمبر 2: شوال کے چھ روزوں کو مکروہ یا ممنوع سمجھنا امام ابو حنیفہ سے باسند صحیح ثابت نہیں ہے۔ زرولی دیوبندی نے فقہ کی کتابوں سے جو کچھ نقل کیا ہے وہ بے سند ہو نے کی وجہ سے مردود ہے۔
تنبیہ نمبر 3: امام مالک نے موطأ امام مالک میں فرمایا ہے کہ انھوں نے علماء وفقہاء میں سے کسی کو یہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور …… علماء اسے مکروہ سمجھتے ہیں……الخ (ج 1 ص 311 تحت ح 699)
یہ قول اس کی دلیل ہے کہ امام مالک تک درج بالا دونوں صحیح حدیثیں اور سیدنا ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ کا فتویٰ نہیں پہنچا ورنہ وہ کبھی یہ الفاظ نہ بیان فرماتے۔
جب حدیث صحیح ثابت ہو جائے تو اس کے مقابلے میں ہر امام کا فتویٰ مردود ہوتا ہے چاہے وہ کتنا ہی بڑا امام ہو۔
سرفراز خان صفدر دیوبندی تقلیدی نے کیا خوب لکھا ہے کہ: ”مسند مرفوع اور صحیح حدیث کے مقابلہ میں دس ہزار تو کیا دس لاکھ بلکہ دس ارب و کھرب حضرات کی بات بھی کوئی وقعت نہیں رکھتی کیونکہ علمی قاعدہ تو یہ ہے:
کل احد یوخذ عنہ ویترک الا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم“ (اتمام البرہان فی رد تو ضیح البیان ص 389)
……………… اصل مضمون ………………
اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 2 صفحہ 322 تا 328) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 322