379 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا عبدة بن ابي لبابة، وعاصم ابن بهدلة انهما سمعا زر بن حبيش يقول: قلت لابي إن اخاك ابن مسعود يقول: من يقم الحول يصب ليلة القدر فقال: يرحم الله ابا عبد الرحمن إنما اراد ان لا يتكل الناس، ولقد علم انها في العشر الاواخر من شهر رمضان وانها ليلة سبع وعشرين ثم حلف ابي لا يستثني انها لليلة سبع وعشرين، فقلنا له: يا ابا المنذر باي شيء علمته؟ قال: بالآية او بالعلامة التي اخبرنا رسول الله صلي الله عليه وسلم «اخبرنا ان الشمس تطلع صبيحة ذلك اليوم ولا شعاع لها» 379 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا عَبْدَةُ بْنُ أَبِي لُبَابَةَ، وَعَاصِمُ ابْنُ بَهْدَلَةَ أَنَّهُمَا سَمِعَا زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ يَقُولُ: قُلْتُ لِأُبَيٍّ إِنَّ أَخَاكَ ابْنَ مَسْعُودٍ يَقُولَ: مَنْ يَقُمِ الْحَوْلَ يُصِبْ لَيْلَةَ الْقَدْرِ فَقَالَ: يَرْحَمُ اللَّهُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّمَا أَرَادَ أَنْ لَا يَتَّكِلَ النَّاسُ، وَلَقَدْ عَلِمَ أَنَّهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ وَأَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ ثُمَّ حَلَفَ أُبَيٌّ لَا يِسْتَثْنِي أَنَّهَا لَلَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، فَقُلْنَا لَهُ: يَا أَبَا الْمُنْذِرِ بِأَيِّ شَيْءٍ عَلَّمْتَهُ؟ قَالَ: بِالْآيَةِ أَوْ بِالْعَلَامَةِ الَّتِي أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَخْبَرَنَا أَنَّ الشَّمْسَ تَطْلُعُ صَبِيحَةَ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَلَا شُعَاعَ لَهَا»
379- زربن بن حبیش کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابی رضی اللہ عنہ سے کہا آپ کے بھائی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ یہ فرماتے ہیں: جو شخص سال بھر نوافل ادا کرتا رہے، وہی شب قدر کو پاسکتا ہے، تو سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ ابو عبدالرحمٰن پر رحم کرے ان کا مقصد یہ ہے کہ لوگ (کسی ایک متعین رات) پر بھروسہ کرکے نہ بیٹھ جائیں، ورنہ وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ یہ رمضان کے آخری عشرے میں ہوتی ہے، اور یہ ستائسویں رات ہے، پھر سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے کسی استثناء کے بغیر قسم اٹھا کر یہ بات بیان کی کہ یہ ستائسویں رات ہوتی ہے۔ ہم نے ان سے گزارش کی: ابے ابوالمنذر! آپ کو اس بات کا کیسے پتہ چلا، تو انہوں نے فرمایا: اس نشانی (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) علامت کی وجہ سے جس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے کہ ”اس رات کو صبح جب سورج نکلتا ہے، تو اس میں شعاع نہیں ہوتی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «"الترغيب فِي قيام رمضان وهو التراويح"» برقم: 762، وابن الجارود في «المنتقى» ، برقم: 446، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2187، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3689، 3690، 3691، والحاكم فى «مستدركه» ، برقم: 5357، والنسائي في «الكبرى» برقم: 3392، وأبو داود برقم: 1378، والترمذي فى «جامعه» برقم: 793،3351، والبيهقي في «سننه الكبير» ، برقم: 8643، 8644، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 21581»
أخبرني عن ليلة القدر يا أبا المنذر فإن صاحبنا سئل عنها فقال من يقم الحول يصبها فقال رحم الله أبا عبد الرحمن والله لقد علم أنها في رمضان ولكن كره أن يتكلوا أو أحب أن لا يتكلوا ثم اتفقا والله إنها لفي رمضان ليلة سبع وعشرين لا يست
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1378
´شب قدر کا بیان۔` زر کہتے ہیں کہ میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کہا: ابومنذر! مجھے شب قدر کے بارے میں بتائیے؟ اس لیے کہ ہمارے شیخ یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے جب اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: جو پورے سال قیام کرے اسے پا لے گا، ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ ابوعبدالرحمٰن پر رحم فرمائے، اللہ کی قسم! انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ رات رمضان میں ہے (مسدد نے اس میں یہ اضافہ کیا ہے لیکن انہیں یہ ناپسند تھا کہ لوگ بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں یا ان کی خواہش تھی کہ لوگ بھروسہ نہ کر لیں، (آگے سلیمان بن حرب اور مسدد دونوں کی روایتوں میں اتفاق ہے) اللہ کی قسم! یہ رات رمضان میں ہے اور ستائیسویں رات ہے، اس سے باہر نہیں، میں نے پوچھا: اے ابومنذر! آپ کو یہ کیوں کر معلوم ہوا؟ انہوں نے جواب دیا: اس علامت سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو بتائی تھی۔ (عاصم کہتے ہیں میں نے زر سے پوچھا: وہ علامت کیا تھی؟ جواب دیا: اس رات (کے بعد جو صبح ہوتی ہے اس میں) سورج طشت کی طرح نکلتا ہے، جب تک بلندی کو نہ پہنچ جائے، اس میں کرنیں نہیں ہوتیں۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب شهر رمضان /حدیث: 1378]
1378. اردو حاشیہ: ➊ لیلۃ القدر کی عبادت دیگر راتوں کے مقابلے میں ہزار مہینے کی عبادت سے افضل ہے۔ [لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ] [القدر۔3] اور یہ مدت تراسی سال چار مہینے بنتی ہے۔ ➋ یہ دعویٰ بالجزم ہو تو قطعا ً صحیح نہیں۔ کہ یہ رات ستایئسویں رمضان ہی کو ہوتی ہے۔ بلکہ امکان ہوتا ہے۔ اسی طرح دیگر طاق راتوں میں بھی ممکن ہے۔ ➌ مذکورہ علامات اگرچہ رات گزر جانے کے بعد کی ہے۔ اس میں فائدہ یہ ہے کہ اگر اس رات سے استفادہ کیا ہو تو انسان شکر کرے۔ اگر محروم رہا ہو تو آئندہ کےلئے شوق کرے۔ ➍ یہ علامت حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کسی سال ستایئسویں کی صبح نظر آئی ہوگی۔ تو اسی سے انہوں نے یقین کرلیا۔ کہ ہر سال یہی رات لیلۃ القدر ہوتی ہے۔ مگر صحیح یہ ہے کہ یہی لیلۃ القدر آخری عشرہ کی طاق راتوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1378