367- امام شعبی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کوفہ تشریف لائیں وہ اپنے بھی ضحاک بن قیس کے ہاں ائی تھیں جو وہاں کے گورنر تھے، ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، ہم نے اس خاتون سے سوال کیا، تو انہوں نے بتایا: میں عمرو بن حفص کی بیوی تھی، اس نے مجھے طلاق دی تو طلاق بتہ دے دی اور خود یمن چلے گئے، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی میں نے اس بات کا تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اور خرچ کا مطالبہ کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آستین کو اس طرح کرتے ہوئے فرمایا(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون سے پردہ کیا تھا) امام حمیدی رحمہ اللہ نے اپنی آستین اپنے سر پر بلند کرکے (یہ کرکے دکھایا): ”اے قیس کی اولاد! کی صاحبزادی۔ رہائش اور خرج کا حق اس عورت کو ملتا ہے، جب اس کے شوہر کو اس سے رجوع کرنے کا حق ہو، لیکن جب شوہر کے لئے اس سے رجوع کرنے کا حق نہ ہو، تو عورت کو رہائش اور خرچ کا حق نہیں ملے گا۔“
پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ فرمایا: ”تم ام شریک بنت ابوالعکر رضی اللہ عنہا کے ہاں عدت بسر کرو۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ ایک ایسی عورت ہے، جس کے ہاں لوگوں کی آمد و رفت رہتی ہے، تو ابن ام مکتوم کے ہاں عدت بسر کرو، کیونکہ وہ ایک نابینا شخص ہے، اگر تم اپنی چادر اتارو گی، تو بھی وہ تمہیں نہیں دیکھ سکے گا۔“
● صحيح البخاري | 2374 | عبد الرحمن بن صخر | يحتطب أحدكم حزمة على ظهره خير له من أن يسأل أحدا فيعطيه أو يمنعه |
● صحيح البخاري | 1480 | عبد الرحمن بن صخر | يأخذ أحدكم حبله ثم يغدو أحسبه قال إلى الجبل فيحتطب فيبيع فيأكل ويتصدق خير له من أن يسأل الناس |
● صحيح البخاري | 2074 | عبد الرحمن بن صخر | يحتطب أحدكم حزمة على ظهره خير له من أن يسأل أحدا فيعطيه أو يمنعه |
● صحيح البخاري | 1470 | عبد الرحمن بن صخر | يأخذ أحدكم حبله فيحتطب على ظهره خير له من أن يأتي رجلا فيسأله أعطاه أو منعه |
● صحيح مسلم | 2400 | عبد الرحمن بن صخر | يغدو أحدكم فيحطب على ظهره فيتصدق به ويستغني به من الناس خير له من أن يسأل رجلا أعطاه أو منعه ذلك اليد العليا أفضل من اليد السفلى ابدأ بمن تعول |
● صحيح مسلم | 2402 | عبد الرحمن بن صخر | يحتزم أحدكم حزمة من حطب فيحملها على ظهره فيبيعها خير له من أن يسأل رجلا يعطيه أو يمنعه |
● جامع الترمذي | 680 | عبد الرحمن بن صخر | يغدو أحدكم فيحتطب على ظهره فيتصدق منه فيستغني به عن الناس خير له من أن يسأل رجلا أعطاه أو منعه اليد العليا أفضل من اليد السفلى ابدأ بمن تعول |
● سنن النسائى الصغرى | 2590 | عبد الرحمن بن صخر | يأخذ أحدكم حبله فيحتطب على ظهره خير له من أن يأتي رجلا أعطاه الله من فضله فيسأله أعطاه أو منعه |
● سنن النسائى الصغرى | 2585 | عبد الرحمن بن صخر | يحتزم أحدكم حزمة حطب على ظهره فيبيعها خير من أن يسأل رجلا فيعطيه أو يمنعه |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 599 | عبد الرحمن بن صخر | الذي نفسي بيده، لياخذ احدكم حبله فيحتطب على ظهره خير له من ان ياتي رجلا اعطاه الله من فضله فيساله، اعطاه او منعه |
● مسندالحميدي | 367 | عبد الرحمن بن صخر | اسمعي مني يا بنت آل قيس، إنما السكنى والنفقة للمرأة إذا كان لزوجها عليها رجعة، فإذا لم يكن له عليها رجعة فلا سكنى لها ولا نفقة |
● مسندالحميدي | 1087 | عبد الرحمن بن صخر | لأن يأخذ أحدكم حبله، فيحتطب به، ثم يجيء به على ظهره، فيبيعه فيأكله أو يتصدق به، خير له من أن يأتي رجلا قد أغناه الله من فضله فيسأله، أعطاه أو منعه ذلك، فإن اليد العليا خير من اليد السفلى |
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:367
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رجعی طلاق میں نان ونفقہ اور سکنیٰ خاوند کے ذمے ہے، طلاق بائنہ دیتے ہی یہ ذمہ داری خاوند سے ختم ہو جاتی ہے۔ طلاق ملنے پر فساد برپا نہیں کر دینا چاہیے، جس طرح ہمارے ہاں برصغیر میں ہو رہا ہے، کئی کئی سال لڑائیاں چلتی ہیں، اور زمانہ جاہلبیت یاد آتا ہے، بلکہ خاموشی کے ساتھ پرسکون طریقے سے سارا معاملہ کرنا چا ہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 367
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 599
´ضرورت کے بغیر مانگنا جائز نہیں ہے`
«. . . 371- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”والذي نفسي بيده، ليأخذ أحدكم حبله فيحتطب على ظهره خير له من أن يأتي رجلا أعطاه الله من فضله فيسأله، أعطاه أو منعه.“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کوئی آدمی اپنی رسی لے، پھر لکڑیاں اکھٹی کر کے اپنی پیٹھ پر (رکھ کر) لے آئے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسے آدمی کے پاس جا کر مانگے جسے اللہ نے اپنے فضل (مال) سے نواز رکھا ہو۔ وہ اسے دے یا دھتکار دے۔“ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 599]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1470، من حديث مالك به * وفي رواية يحييٰ بن يحييٰ: ”لَأَنْ يَأْخُذَ“]
تفقه:
➊ بہترین رزق وہی ہے جسے انسان اپنے ہاتھوں اور محنت سے کمائے۔
➋ شرعی عذر کے بغیر لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 371
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2585
´لوگوں سے مانگنا اور سوال کرنا کیسا ہے؟`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم میں سے کوئی لکڑیوں کا ایک گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے، پھر اسے بیچے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی آدمی سے مانگے، تو اسے دے یا نہ دے۔“ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2585]
اردو حاشہ:
محنت اور مشقت کر کے اپنی عزت نفس محفوظ رکھنا مانگنے کی ذلت سے بدرجہا بہتر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2585
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2590
´دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور مانگنے سے بچنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ایک شخص کا اپنی رسی لے کر لکڑیوں کا گٹھا باندھ کر پیٹھ پر لادنا اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کے پاس جائے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل (مال) سے نوازا ہو، وہ اس سے مانگے، تو وہ اسے دے یا نہ دے۔“ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2590]
اردو حاشہ:
”اپنے فضل“ قرآن وحدیث میں عموماً فضل سے مراد دنیوی رزق ہوتا ہے اور رحمت سے مراد اخروی ثواب۔ کسی آدمی سے دنیوی چیز ہی مانگی جا سکتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2590
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 680
´دوسروں سے مانگنے کی ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”تم میں سے کوئی شخص صبح سویرے جائے اور لکڑیوں کا گٹھر اپنی پیٹھ پر رکھ کر لائے اور اس میں سے (یعنی اس کی قیمت میں سے) صدقہ کرے اور اس طرح لوگوں سے بے نیاز رہے (یعنی ان سے نہ مانگے) اس کے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ وہ کسی سے مانگے، وہ اسے دے یا نہ دے ۱؎ کیونکہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہے ۲؎، اور پہلے اسے دو جس کی تم خود کفالت کرتے ہو۔“ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 680]
اردو حاشہ:
1؎:
عزیمت کی راہ یہی ہے کہ آدمی ضرورت و حاجت ہونے پر بھی کسی سے سوال نہ کر ے اگرچہ ضرورت و حاجت کے وقت سوال کرنا جائز ہے۔
2؎:
اوپر والے ہاتھ سے مراد دینے والا ہاتھ ہے اور نیچے والے ہاتھ سے مراد لینے والا ہاتھ ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 680
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1087
1087- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں تین سال تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہا ہوں ان تین سالوں کے دوران میں کسی بھی معاملے میں اس سے زیادہ حریص نہیں تھا جتنا میں اس بات کا خواہشمند تھا کہ میں احادیث کویاد رکھوں۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: کسی شخص کا اپنی رسی کو لے کر اس میں لکڑیاں باندھ کر پھر انہیں اپنی پشت پر لاد کر انہیں فروخت کرکے اسے کھانا یا اسے صدقہ کرنا اس کے لیے اس سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کے پاس آئے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ذریعے غنی کیا ہو، اور وہ اس شخص سے کچھ مانگے تو وہ شخص خواہ اسے کچھ دے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1087]
فائدہ: اس حدیث میں رزق حلال کمانے کے لیے محنت مزدوری کر نے کی ترغیب ملتی ہے، انسان کو ہمیشہ ناجائز سوال کرنے سے بچنا چاہیے، جب بھی مانگا جائے صرف اللہ تعالیٰ سے مانگا جائے، کوئی کسی کو کچھ نہیں دے سکتا، ہاں ایک ذات ہے جو سب کو سب کچھ عطا کر سکتی ہے، اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ نیز اس حدیث میں علوم نبوت کے طالبان کے لیے درس ہے کہ وہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا کردار ادا کریں اور اپنے اساتذہ کے ساتھ چمٹ جائیں، جو کچھ سنے اس کو زبانی یاد کرتے جائیں، جو بھی اپنے اساتذہ سے چمٹا، اللہ تعالیٰ نے اس کو گوہر نایاب بنا دیا۔
موجودہ دور میں دینی مدارس سے محدثین کی جماعتیں کیوں پیدا نہیں ہو رہیں؟ کیا اس دور میں انہی مدارس سے بڑے بڑے محدثین کا پیدا ہونا ممکن ہے؟ وہ کون سی فکر تھی اور کون سا منہج تھا جس نے محدثین کی نیند میں اڑا دیں؟ اس طرح کے ہزاروں سوالوں کے جوابات کے لیے راقم الحروف کی قیمتی کتاب
”نصیحتیں میرے اسلاف کی“ کا مطالعہ کریں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1086
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2402
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! تم میں سے کوئی لکڑیوں کا گٹھا اکٹھا کرے اور اسے اپنی پیٹھ پر لاد کر بیچ دے اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ کسی آدمی سے سوال کرے وہ اسے دے یا محروم رکھے یعنی دے یا نہ دے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2402]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ایک مسلمان کے شایان یہ طرز عمل ہے کہ وہ خود محنت و مزدوری کرے خود کمائی کر کے دوسروں کو دینے کے قابل بنے یا کم ازکم اپنی ضروریات ہی پوری کر لے اور مانگنے کی ذلت و رسوائی سے بچ جائے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2402
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1470
1470. حضرت ا بو ہریرۃ ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں سے اگر کوئی رسی میں لکڑیوں کا گٹھا باندھے اور اسے اپنی پیٹھ پر لادکر لائے تو دوسرے کے پاس جاکر سوال کرنے سے بہتر ہے،(معلوم نہیں) وہ اسے دے یا نہ دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1470]
حدیث حاشیہ:
حدیث ہذا سے یہ نکلتا ہے کہ ہاتھ سے محنت کرکے کھانا کمانا نہایت افضل ہے۔
علماءنے کہا ہے کہ کمائی کے تین اصول ہیں۔
ایک زراعت‘ دوسری تجارت‘ تیسری صنعت وحرفت۔
بعضوں نے کہا ان تینوں میں تجارت افضل ہے۔
بعضوں نے کہا زراعت افضل ہے۔
کیونکہ اس میں ہاتھ سے محنت کی جاتی ہے۔
اور حدیث میں ہے کہ کوئی کھانا اس سے بہتر نہیں ہے جو ہاتھ سے محنت کرکے پیدا کیا جائے‘ زراعت کے بعد پھر صنعت افضل ہے۔
اس میں بھی ہاتھ سے کام کیا جاتا ہے۔
اور نوکری تو بدترین کسب ہے۔
ان احادیث سے یہ بھی ظاہر ہے کہ رسول کریم ﷺ نے محنت کرکے کمانے والے مسلمان پر کس قدر محبت کا اظہار فرمایا کہ اس کی خوبی پر آپ نے اللہ پاک کی قسم کھائی۔
پس جو لوگ محض نکمے بن کر بیٹھے رہتے ہیں اور دوسروں کے دست نگر رہتے ہیں۔
پھر قسمت کا گلہ کرنے لگتے ہیں۔
یہ لوگ عنداللہ وعندالرسول اچھے نہیں ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1470
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2374
2374. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی اپنی کمر پر لکڑیوں کا گٹھا لائے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ دوسروں سے سوال کرے، خواہ کوئی اس کو دے یا نہ دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2374]
حدیث حاشیہ:
اس سے بھی لکڑیاں بیچنا ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2374
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1470
1470. حضرت ا بو ہریرۃ ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں سے اگر کوئی رسی میں لکڑیوں کا گٹھا باندھے اور اسے اپنی پیٹھ پر لادکر لائے تو دوسرے کے پاس جاکر سوال کرنے سے بہتر ہے،(معلوم نہیں) وہ اسے دے یا نہ دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1470]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے بڑے بلیغ انداز میں دوسروں سے سوال کرنے کی مذمت فرمائی ہے، یعنی لکڑیاں جمع کرنے میں جو اسے عار لاحق ہو گی وہ اس ذلت و رسوائی سے کہیں بہتر ہے جو دنیوی مال و متاع کے لیے سوال کرنے سے لاحق ہو گی۔
(2)
اس حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے محنت کر کے کمانے والے کے متعلق کس قدر محبت کا اظہار فرمایا ہے کہ اس کی خوبی پر اللہ تعالیٰ نے قسم اٹھائی ہے، اس بنا پر جو لوگ محض نکمے بن کر بیٹھے رہتے ہیں اور دوسروں کے دست نگر بنتے ہیں، ایسے لوگ اللہ کے ہاں انتہائی ناپسندیدہ ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1470
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1480
1480. حضرت ابو ہریرۃ ؓ ہی سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”تم میں سے کوئی اپنی رسی پکڑے اور صبح صبح پہاڑ کی طرف چلاجائے، وہاں لکڑیاں چنے، پھر انھیں فروخت کرے، اس سے کچھ کھائے اور کچھ صدقہ کردے، یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرتا پھرے۔“ امام بخاری ؓ بیان کر تے ہیں کہ راوی حدیث صالح بن کیسان امام زہری ؓ سے بڑے ہیں اور انھوں نے حضرت ا بن عمر ؓ کا زمانہ پایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1480]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی پہلی حدیث میں مسکین کی تعریف کی گئی ہے، اس تعریف سے غنا کا مفہوم اخذ کیا جا سکتا ہے، ہمارے نزدیک غنا کی تین اقسام ہیں:
٭ وہ انسان غنی ہے جو نصاب کا مالک ہو اور اس پر زکاۃ ادا کرنا ضروری ہو، رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ ؓ سے فرمایا تھا کہ یمن کے غنی حضرات سے زکاۃ وصول کی جائے اور ان کے فقیروں پر تقسیم کر دی جائے۔
٭ وہ انسان جو صاحب نصاب تو نہ ہو لیکن اس کے پاس اتنا مال ہو کہ اس کے لیے زکاۃ لینا حرام ہو۔
٭ وہ انسان جس کے پاس اتنا مال موجود ہو کہ اس کے لیے لوگوں سے سوال کرنا حرام ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس ایک دن اور رات کا کھانا موجود ہو اور اتنا کپڑا بھی موجود ہو جس سے وہ ستر پوشی کر سکے۔
(2)
حضرت ابو ہریرہ ؓ کی دوسری حدیث سے کسب حلال کے لیے محنت ومزدوری کرنا ثابت ہے۔
اگر کسی انسان کے پاس اس قدر وسائل ہیں کہ وہ انہیں استعمال میں لا کر گزر اوقات کر سکتا ہے تو اسے بھی غنی کہا جا سکتا ہے اور ایسے شخص پر بھی لوگوں سے سوال کرنا حرام ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ کسی مالدار، صحیح و سلامت اعضاء والے طاقت ور کے لیے زکاۃ جائز نہیں، ایک دوسری روایت میں ہے کہ مالدار، صحت مند اور کمانے والے آدمی کے لیے زکاۃ میں کوئی حصہ نہیں۔
(مسندأحمد: 164/2) (3)
واضح رہے کہ پانچ قسم کے مالدار افراد کے لیے صدقہ جائز ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مالدار شخص کے لیے پانچ صورتوں کے علاوہ صدقہ حلال نہیں:
٭ زکاۃ کا مال اکٹھا کرنے کی صورت میں۔
٭ وہ شخص جو اپنے مال سے صدقے کی کوئی چیز خریدے۔
٭ جو مالدار مقروض ہو جائے۔
٭ فی سبیل اللہ جہاد کرنے والا۔
٭ مسکین پر جو چیز صدقہ کی گئی، وہ کسی مالدار کو تحفہ دے دے۔
(مسندأحمد: 56/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1480
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2374
2374. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی اپنی کمر پر لکڑیوں کا گٹھا لائے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ دوسروں سے سوال کرے، خواہ کوئی اس کو دے یا نہ دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2374]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ انسان کے لیے اپنی خود داری کا تحفظ بہت ضروری ہے۔
جس طرح بھی ہو سکے اپنے ہاتھ سے کمائی کرے۔
یہ اس بات سے کہیں بہتر ہے کہ دوسروں کے سامنے سوال کرتا پھرے۔
ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ رزق کا راستہ کھول دیتا ہے۔
(2)
ان احادیث میں لکڑیوں کو فروخت کرنے کا حکم بیان ہوا ہے، پانی پینے پلانے کی احادیث میں انہیں اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ پانی، گھاس اور لکڑیوں سے نفع اٹھانے میں سب لوگ شریک ہیں اور یہ چیزیں کسی کی ملکیت نہیں، جو بھی ان پر پہلے قبضہ کر لے وہی ان کا مالک ہے اور اس کے لیے مباح اور جائز ہیں۔
روایات میں اگرچہ لکڑیوں کا ذکر ہے، تاہم امام بخاری ؒ نے گھاس کو بھی اس میں شامل فرمایا ہے۔
جنگل سے گھاس کاٹ کر لانا اور بازار میں اسے فروخت کرنا، اللہ کے ہاں یہ بھی ایک پسندیدہ عمل ہے، اس سے آدمی سوال کرنے کی لعنت سے محفوظ رہتا ہے۔
(3)
یاد رہے کہ اگر یہ چیزیں کسی کی ملکیت ہیں تو پھر مالک کی اجازت کے بغیر انہیں استعمال کرنا درست نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2374