329 - حدثنا الحميدي قال: حدثنا سفيان قال: ثنا اخو الزهري قال: اخبرني من سمع اسماء بنت ابي بكر تقول قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «يا معشر المؤمنات لا ترفعن امراة منكن راسها قبل ان يرفع الإمام راسه؛ من ضيق ثياب الرجال» 329 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا أَخُو الزُّهْرِيِّ قَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْ سَمِعَ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ تَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا مَعْشَرَ الْمُؤْمِنَاتِ لَا تَرْفَعَنَّ امْرَأَةٌ مِنْكُنَّ رَأْسَهَا قَبْلَ أَنْ يَرْفَعَ الْإِمَامُ رَأْسَهُ؛ مِنْ ضِيقِ ثِيَابِ الرِّجَالِ»
329- سیدہ اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے مؤمن خواتین کے گروہ! کوئی بھی عورت اپنے سر امام کے اٹھنے سے پہلے نہ اٹھائے“(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اس لئے فرمائی) کیونکہ مردوں کے کپڑے چھوٹے ہوتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف أخرجه أبو داود فى «سننه» ، برقم: 851، والبيهقي في «سننه الكبير» ، برقم: 3353، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 27589، برقم: 27590،وعبد الرزاق في «مصنفه» ، برقم: 5109، والطبراني في «الكبير» ، برقم: 260»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:329
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عورتیں مردوں کے پیچھے صفیں بنا کر نماز پڑھ سکتی ہیں، اور یہ تب ہے جب کسی فتنے کا ڈر نہ ہو۔ رزق کی تنگی عبادت میں آڑے نہیں آنی چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 329
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 851
´عورتیں جب مردوں کے ساتھ ہوں تو سجدے سے اپنا سر کب اٹھائیں؟` اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تم میں سے جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو، وہ اپنا سر (سجدے سے) اس وقت تک نہ اٹھائے جب تک کہ مرد نہ اٹھا لیں، اس اندیشہ سے کہ ان کی نظر کہیں مردوں کے ستر پر نہ پڑے ۱؎۔“[سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 851]
851۔ اردو حاشیہ: ➊ کپڑوں کی قلت اور ناداری کے باعث بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ایک ایک چادر میں نماز پڑھتے تھے۔ اور بعض اوقات وہ اس قدر مختصر ہوتی تھیں کہ انہیں گردنوں پر باندھے ہوتے تھے۔ اس لئے مذکورہ ہدایات دی گئیں اور اب اگرچہ حالات بدل گئے مگر ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل واجب ہے۔ قرینہ اس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاکید سے یہ فرمانا ہے کہ جو تم میں سے اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہے۔ نیز اس کی دوسری مثال طواف قدوم میں رمل کرنا ہے۔ یعنی آہستہ آہستہ دوڑنا، یہ بھی ایک وقتی ضرورت سے تھا۔ مگر جملہ ائمہ امت نے اس سنت کو «علي حالها» باقی رکھنا تسلیم کیا ہے۔ ➋ صحابیات بھی نماز باجماعت کا اہتمام کرتی تھیں۔ ➌ دوسرے کے ستر کو دیکھنا ناجائز ہے، اور اچانک نظر پڑنے کے اندیشے سے بھی بچنا چاہیے، البتہ زوجین اس سے مستثنٰی ہیں۔ کیونکہ یہ ایک دوسرے کا لباس ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 851