285 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، عن محمد بن عمرو بن علقمة، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، عن عائشة ان ذهبا كانت اتت النبي صلي الله عليه وسلم فتعار من الليل وهي اكثر من السبعة واقل من التسعة فلم يصبح حتي قسمها ثم قال: «ما ظن محمد بربه لو مات وهذه عنده » قال سفيان: اراها صدقة كانت اتته او حقا لإنسان خشي ان يتوي285 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ ذَهَبًا كَانَتْ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَعَارَّ مِنَ اللَّيْلِ وَهِيَ أَكْثَرُ مِنَ السَّبِعَةِ وَأَقَلُّ مِنَ التِّسْعَةِ فَلَمْ يُصْبِحْ حَتَّي قَسَّمَهَا ثُمَّ قَالَ: «مَا ظَنُّ مُحَمَّدٍ بِرَبِّهِ لَوْ مَاتَ وَهَذِهِ عِنْدَهُ » قَالَ سُفْيَانُ: أُرَاهَا صَدَقَةً كَانَتْ أَتَتْهُ أَوْ حَقًّا لِإِنْسَانٍ خَشِيَ أَنْ يَتْوَي
285- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ سونا آیا، وہ رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا تھا وہ سات سے زیادہ تھا اور نو سے کم تھا، تو صبح ہونے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تقسیم کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”محمد کا اپنے پروردگار کے بارے میں کیا گمان ہوگا کہ اگر وہ انتقال کرجائے اور یہ سونا اس کے پاس ہو“۔ سفیان کہتے ہیں: میرا خیال ہے یہ زکواۃ کا سونا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا تھا یا پھر یہ کسی انسان کا حق تھا جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اندیشہ تھا کہ کہیں وہ ضائع نہ ہوجائے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، وأخرجه أحمد 49/6، 182، وابن سعد فى الطبقات 32/2, 33/2، وابن أبى شيبة برقم 16218 وابن حبان برقم 3212، بتحقيقناً، والبغوي فى «شرح السنة، برقم 1658، من طرف: حدثنا محمد بن عمرو، بهذا الإسناد»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:285
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ صدقے کے مال کو جلدی سے جلدی اس کے اہل تک پہنچا دینا چاہیے اور صدقے کے مال کو تقسیم کرنے میں سستی نہیں کرنی چاہیے۔ خیانت حرام اور کبیرہ گناہ ہے، خواہ صدقات میں ہی کی جائے یا کسی دوسرے معاملے میں کی جائے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 285