170 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا الزهري قال: اخبرني عروة بن الزبير، عن عائشة قالت: «كان رسول الله صلي الله عليه وسلم يصلي العصر والشمس طالعة في حجرتي لم يظهر الفيء عليها بعد» 170 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا الزُّهْرِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ طَالِعَةٌ فِي حُجْرَتِي لَمْ يَظْهَرِ الْفَيْءُ عَلَيْهَا بَعْدُ»
170- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ادا کرلیتے تھے حالانکہ سورج ابھی میرے حجرے میں بلند ہوتا تھا اور سایہ ظاہر نہیں ہوا ہوتا تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، أخرجه البخاري 522، ومسلم: 611، وابن حبان فى ”صحيحه“: 1521، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:4420»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:170
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز عصر پڑھنے میں جلدی کرنی چاہیے، نماز عصر کا وقت ایک مثل سے شروع ہو جاتا ہے۔ نیز اس سے سایہ کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ اس کے ذریعے نمازوں کے اوقات معلوم کیے جاتے ہیں۔ آج کل گھڑیاں عام ہوگئی ہیں، اس لیے کوئی سائے سے وقت کا تعین نہیں کرتا۔ نیز اللہ تعالیٰ کے نظام شمسی کے مربوط ہونے کا یقین حاصل ہوتا ہے کہ زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی نہیں بلکہ روز اول سے لے کر اب تک اللہ کے حکم کے مطابق مسلسل اپنی منزلیں طے کر رہے ہیں، سبحان اللہ، اس کو اور ساری کائنات کے نظام کو چلانے والا اللہ ہے، ہمیں صرف اسی کی عبادت کرنی چاہیے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ نظام کائنات کو چلانے والا وہ صرف ایک ہی ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 170
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 79
´نماز کے اوقات اور ان کے فضائل` «. . . اليس قد علمت ان جبرائيل نزل فصلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم . . .» ”. . . کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جبریل علیہ السلام نے نازل ہو کر نماز پڑھائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 79]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 521، 522، ومسلم 610/167، من حديث ما لك به]
تفقه: ➊ سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوع روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دو دفعہ بیت اللہ کے پاس نماز کی امامت کرائی۔ انہوں نے پہلی دفعہ ظہر اس وقت پڑھی جب سایہ تسمہ کے برابر (بہت تھوڑا) تھا پھر ایک مثل پر عصر کی نماز پڑھی پھر سورج کے غروب ہوتے ہی مغرب کی نماز پڑھی پر شفق کے غائب ہونے کے بعد عشاء کی نماز پڑھی پھر صبح صادق ظاہر ہونے کے بعد فجر کی نماز پڑھی۔ دوسری دفعہ ظہر کی نماز ایک مثل پر عصر کی نماز دو مثل پر اور مغرب کی نماز پہلے کی طرح سورج غروب ہوتے ہی پڑھی، عشاء کی نماز ایک تہائی رات گزرنے کے بعد اور فجر کی نماز خوب روشنی میں پڑھی پھر جبریل علیہ السلام نے فرمایا: ان دو وقتوں کے درمیان (پانچ نمازوں کا) وقت ہے۔ [سنن ابي داود: 393 وسنده حسن وقال الترمذي: 149 ”حسن“ و صححه ابن خزيمه: 325 و ابن الجارود: 149، 150، والحاكم 197/1 ح 707 وقال النيموي فى آثار السنن: 194 ”و إسناد حسن“] ◄ اس مفہوم کی روایات درج ذیل صحابہ کرام سے بھی ثابت ہیں: ◈ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ [سنن النسائي 249/1، 250 ح 503 وسنده حسن وحسنه البخاري/العلل الكبير للترمذي 203/1 ب 46] ◈ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ [سنن الترمذي: 150، وقال: حديث حسن، سنن النسائي 263/1 ح 527 وإسناده حسن و صححه ابن حبان، الاحسان: 1470، والحاكم 195/1، 196، والذهبي] ◈ سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ [مسند أحمد 30/3 ح 11249، وسنده حسن] ◈ سیدنا ابومسعود الانصاری رضی اللہ عنہ [سنن ابي داود: 394 نحو المعنٰي وهو حديث حسن صحيح و صححه ابن خزيمه: 352 وابن حبان، الموارد: 279 والحاكم 192/1، 193] ◄ امامت جبریل والی یہ حدیث متواتر ہے۔ دیکھئے: [قطف الازهار 23، نظم المتناثر 49] ➋ اس پر اجماع ہے کہ نماز ظہر کا وقت زوال کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے۔ [الافصاح لا بن هبير 76/1، الاجماع لابن المنذر: 34، مراتب الاجماع لابن حزم ص26] ⟐ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حکم جاری کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ظہر کا وقت ایک ذراع سائے سے لے کر ایک مثل تک رہتا ہے۔ [الاوسط لابن المنذر ر328/2 ث 948 وسنده صحيح] ⟐ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوموسٰی الاشعری رضی اللہ عنہ کو لکھ کر حکم بھیجا کہ ظہر کی نماز سورج کے زوال پر پڑھو۔ [موطأ مالك رواية يحييٰ 7/1 ح 5، ك 1 ب 1 ح 7 وسنده صحيح] ◄ جن روایات میں آیا ہے کہ جب گرمی زیادہ ہو تو ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو، ان تمام احادیث کا تعلق سفر کے ساتھ ہے جیسا کہ صحیح بخاری [539] کی حدیث سے ثابت ہے۔ ⟐ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”جب سایہ ایک مثل ہو جائے تو ظہر کی نماز ادا کرو اور جب دو مثل ہو جائے تو عصر پڑھو [موطأ امام مالك 8/1 ح 9 وسنده صحيح] ◄ اس کا مطلب یہ ہے کہ ظہر کی نماز زوال سے لے کر ایک مثل تک پڑھ سکتے ہیں یعنی ظہر کا وقت زوال سے لے کر ایک مثل تک ہے اور عصر کا وقت ایک مثل سے لے کر دو مثل تک ہے۔ دیکھئے: [التعيلق الممجد ص 41 حاشيه 9] ◈ سوید بن غفلہ رحمہ اللہ (تابعی کبیر) نماز ظہر اول وقت ادا کرنے پر اس قدر ڈٹے ہوئے تھے کہ مرنے مارنے کے لئے تیار ہو گئے مگر یہ گوارا نہ کیا کہ ظہر کی نماز تاخیر سے پڑھیں اور لوگوں کو بتایا کہ ہم سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز ظہر اول وقت میں ادا کرتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 323/1 ح 3271 وسنده حسن] ➌ ائمہ ثلاثہ (اور جمہور علماء) کے نزدیک عصر کا وقت ایک مثل پر شروع ہو جاتا ہے۔ دیکھئے کتاب [الام للشافعي 73/1، والا وسط لابن المنذر 329/2] ➍ سنن ابی داود کی ایک روایت میں آیا ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز (فجر) وفات تک اندھیرے میں رہی اور آپ نے (اس دن کے بعد)کبھی روشنی میں نماز نہیں پڑھی۔ [63/1 ح 394 وهو حديث حسن، والناسخ والمنسوخ للحازمي ص 77 و صححه ابن خزيمة: 352 وابن حبان، الاحسان: 1446، والحاكم 192/1، 193، للحد يث شاهد حسن لذاته عند الحاكم،] ◄ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز فجر روشنی کر کے پڑھنا منسوخ ہے لہٰذا یہ نماز اندھیرے میں ہی پڑھنی چاہئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حکم فرمایا اور فجر کی نماز اس وقت پڑھو جب ستارے صاف ظاہر اور باہم الجھے ہوئے ہوں۔ [موطأ امام مالك 7/1 ح 6 وسنده صحيح] ● سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مزید فرمایا: اور صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھو۔ [اسنن الكبري للبيهقي 456/1 وسنده حسن،] ● سیدنا ابوموسیٰ الاشعری اور سیدنا عبد الله بن الزبیر رضی اللہ عنہما فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 320/1 ح 3239، 3240 وسندهما صحيح] ● خلیفہ عمر بن عبدالعزيز الاموی رحمہ اللہ نے حکم جاری کیا کہ فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھو۔ [مصنف ابن ابي شيبه 320/1 ح 3237 وسنده صحيح] ➎ صحابہ و تابعین کے مبارک دور میں صحیح سندوں کے ساتھ بیان کردہ احادیث رسول کو حجت سمجھا جاتا تھا۔ ➏ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر عالم کو تمام دلائل کا علم ہر حال میں ہو بلکہ عین ممکن ہے کہ بڑے سے بڑے عالم سے بعض دلائل مخفی رہ جائیں۔ ➐ اوقات نماز کا تعین الله تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ ➑ علمائے حق کی ذمہ داری ہے کہ حتی الوسع ہر وقت کتاب و سنت کی دعوت پھیلانے میں مصروف رہیں۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 45
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 521
521. حضرت ابن شہاب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے ایک دن (عصر کی) نماز کو مؤخر کر دیا تو ان کے پاس حضرت عروہ بن زبیر ؓ آئے اور ان سے کہا کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ جب عراق میں (گورنر) تھے تو ایک دن ان سے نماز میں کچھ تاخیر ہو گئی۔ حضرت ابومسعود انصاری ؓ ان کے پاس آئے اور ان سے کہا: اے مغیرہ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ایک دن حضرت جبرئیل ؑ نازل ہوئے اور انھوں نے نماز پڑھی تو رسول اللہ ﷺ نے بھی ان کے ساتھ نماز ادا کی، پھر دوسری نمازی کا وقت ہوا تو حضرت جبرئیل ؑ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی، پھر تیسری نماز کے وقت حضرت جبرئیل ؑ کی معیت میں رسول اللہ ﷺ نے نماز ادا کی، پھر چوتھی نماز کے وقت بھی دونوں نے اکٹھے نماز پڑھی، پھر پانچویں نماز کے وقت حضرت جبرئیل ؑ نے نماز پڑھی تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ ہی نماز ادا کی،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:521]
حدیث حاشیہ: حضرت إمام الدنیا في الحدیث امام بخاری ؒ نے اپنی پاکیزہ کتاب کے پارہ سوم کو کتاب مواقیت الصلوٰة سے شروع فرمایا، آگے باب مواقیت الصلوٰة الخ منعقد کیا، ان ہر دو میں فرق یہ کہ کتاب میں مطلق اوقات مذکور ہوں گے، خواہ فضیلت کے اوقات ہوں یا کراہیت کے اورباب میں وہ وقت مذکور ہورہے ہیں جن میں نماز پڑھنا افضل ہے۔ مواقیت کی تحقیق اورآیت کریمہ مذکورہ کی تفصیل میں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب مبارک پوری ؒ تحریر فرماتے ہیں: ''مواقيت الصلاة، جمع ميقات وهو مفعال من الوقت. والمراد به الوقت الذي عينه الله لأداء هذه العبادة، وهو القدر المحدود للفعل من الزمان. قال تعالى: {إن الصلاة كانت على المؤمنين كتاباً موقوتاً}[103: 4] أي: مفروضاً في أوقات معينة معلومة، فأجمل ذكر الأوقات في هذه الآية، وبينها في مواضع أخر من الكتاب من غير ذكر تحديد أوائلها وأواخرها، وبين على لسان الرسول - صلى الله عليه وسلم - تحديدها ومقاديرها الخ.'' (مرعاة: جلد 1، ص: 383) ”یعنی لفظ مواقیت کا ماہ وقت ہے اوروہ مفعال کے وزن پر ہے اوراس سے مراد وقت ہے۔ جسے اللہ نے اس عبادت کی ادائیگی کے لیے متعین فرمادیا اوروہ زمانہ کاایک محدود حصہ ہے۔ اللہ نے فرمایانماز کہ ایمان والوں پر وقت مقررہ پر فرض کی گئی ہے۔ اس آیت میں اوقات کامجمل ذکر ہے، قرآن پاک کے دیگر مقامات پر کچھ تفصیلات بھی مذکورہیں، مگروقتوں کا اول وآخر اللہ نے اپنے رسول ﷺ کی زبان مبارک ہی سے بیان کرایاہے۔ “ آیت کریمہ: ﴿ أقم الصلوٰة طرفي النهار وزلفا من اللیل﴾ میں فجر اورمغرب اور عشاء کی نمازیں مذکور ہیں۔ آیت کریمہ ﴿أقم الصلوٰۃ لدلوك الشمس﴾ میں ظہر وعصر کی طرف اشارہ ہے۔ ﴿إلی غسق الليل﴾ میں مغرب اورعشاء مذکورہیں ﴿وقرآن الفجر﴾ میں نماز فجر کا ذکر ہے۔ آیت کریمہ ﴿فسبحان اللہ حین تمسون﴾ میں مغرب اورعشاء مذکور ہیں ﴿وحین تصبحون﴾ میں صبح کا ذکر ہے۔ ﴿وعشیا﴾ میں عصر اور ﴿حین تظهرون﴾ میں ظہر اورآیت شریفہ ﴿وسبح بحمدربك قبل طلوع الشمس﴾ میں فجر اور ﴿قبل غروبها﴾ میں عصر ﴿ومن آنآءاللیل﴾ آیت کریمہ ﴿وزلفا من اللیل﴾ کی طرح ہے۔ ﴿فسبحه وأطراف النهار﴾ میں ظہر کا ذکر ہے۔ الغرض نماز پنجگانہ کی یہ مختصر تفصیلات قرآن کریم میں ذکرہوئی ہیں، ان کے اوقات کی پوری تفصیل اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے اپنے عمل اورقول سے پیش کی ہیں، جن کے مطابق نماز کا ادا کرنا ضروری ہے۔ آج کل کچھ بدبختوں نے احادیث نبوی کا انکار کرکے صرف قرآن مجید پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کیاہے، چونکہ وہ قرآن مجید کی تفسیر محض اپنی رائے ناقص سے کرتے ہیں اس لیے ان میں کچھ لوگ پنج وقت نمازوں کے قائل ہیں، کچھ تین نمازیں بتلاتے ہیں اورکچھ دونمازوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ پھر ادائیگی نماز کے لیے انھوں نے اپنے ناقص دماغوں سے جو صورتیں تجویز کی ہیں وہ انتہائی مضحکہ خیز ہیں۔ احادیث نبوی کو چھوڑنے کایہی نتیجہ ہونا چاہیے تھا، چنانچہ یہ لوگ اہل اسلام میں بدترین انسان کہے جاسکتے ہیں۔ جنھوں نے قرآن مجید کی آڑمیں اپنے پیارے رسول ﷺ کے ساتھ کھلی ہوئی غداری پر کمرباندھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نصیب فرمائے۔ آیت مذکورہ باب کے تحت امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ اگرتلوار چل رہی ہو اورٹھہرنے کی مہلت نہ ہو توتب بھی نماز اپنے وقت پر پڑھ لینی چاہیے، امام مالک ؒ کے نزدیک ایسے وقت میں نماز میں تاخیر درست ہے۔ ان کی دلیل خندق کی حدیث ہے جس میں مذکورہے کہ آنحضرت ﷺ نے کئی نمازوں کو تاخیر سے ادا فرمایا، وہ حدیث یہ ہے: ''عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ، جَاءَ يَوْمَ الخَنْدَقِ، بَعْدَ مَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَجَعَلَ يَسُبُّ كُفَّارَ قُرَيْشٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا كِدْتُ أُصَلِّي العَصْرَ، حَتَّى كَادَتِ الشَّمْسُ تَغْرُبُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَاللَّهِ مَا صَلَّيْتُهَا» فَقُمْنَا إِلَى بُطْحَانَ، فَتَوَضَّأَ لِلصَّلاَةِ وَتَوَضَّأْنَا لَهَا، فَصَلَّى العَصْرَ بَعْدَ مَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى بَعْدَهَا المَغْرِبَ۔ '' (متفق علیه) ”یعنی جابر بن عبداللہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ خندق کے دن سورج غروب ہونے کے بعد کفار قریش کو برابھلا کہتے ہوئے خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور کہا کہ حضور میری عصر کی نماز رہ گئی، آنحضرت ﷺ نے فرمایاکہ میں بھی نہیں پڑھ سکاہوں۔ پس آپ ﷺ نے اورہم نے وضوکیا اور پہلے عصرکی نماز پھرمغرب کی نماز ادا کی۔ “ معلوم ہوا کہ ایسی ضرورت کے وقت تاخیر ہونے میں مضائقہ نہیں ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ اس موقعہ پر آنحضرت ﷺ اورصحابہ رضی اللہ عنہم کی چار نمازیں فوت ہوگئیں تھیں، جن کو مغرب کے وقت ترتیب کے ساتھ پڑھایاگیا۔ بعض علمائے احناف کا یہ کہنا کہ حضرت عمربن عبدالعزیز ؒ کے زمانہ میں عصر کی نماز دیر کرکے پڑھنے کا معمول غلط تھا روایت میں صاف موجود ہے کہ أخّر الصلوٰة یوما ایک دن اتفاق سے تاخیر ہوگئی تھی، حنفیہ کے جواب کے لیے یہی روایت کافی ہے۔ واللہ أعلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 521
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:521
521. حضرت ابن شہاب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے ایک دن (عصر کی) نماز کو مؤخر کر دیا تو ان کے پاس حضرت عروہ بن زبیر ؓ آئے اور ان سے کہا کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ جب عراق میں (گورنر) تھے تو ایک دن ان سے نماز میں کچھ تاخیر ہو گئی۔ حضرت ابومسعود انصاری ؓ ان کے پاس آئے اور ان سے کہا: اے مغیرہ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ایک دن حضرت جبرئیل ؑ نازل ہوئے اور انھوں نے نماز پڑھی تو رسول اللہ ﷺ نے بھی ان کے ساتھ نماز ادا کی، پھر دوسری نمازی کا وقت ہوا تو حضرت جبرئیل ؑ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی، پھر تیسری نماز کے وقت حضرت جبرئیل ؑ کی معیت میں رسول اللہ ﷺ نے نماز ادا کی، پھر چوتھی نماز کے وقت بھی دونوں نے اکٹھے نماز پڑھی، پھر پانچویں نماز کے وقت حضرت جبرئیل ؑ نے نماز پڑھی تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ ہی نماز ادا کی،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:521]
حدیث حاشیہ: (1) کتاب اور باب میں لفظی تکرار نہیں ہے، کیونکہ کتاب مواقیت الصلاة میں احکام اوقات کا بیان ہے کہ کن اوقات میں نماز پڑھنا مکروہ، کن میں افضل اور کن میں جائز ہے، جبکہ باب مواقیت الصلاة میں صرف ان اوقات کا بیان ہے جن میں نماز پڑھنا افضل ہے۔ (2) امرائے بنو امیہ نماز دیر سے پڑھنے کہ عادی تھے، لیکن حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کو اللہ تعالیٰ نے اس عادت سے محفوظ رکھا۔ اتفاقاً ایک دن عصر کی نماز میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ (صحیح البخاري، بدءالخلق، حدیث: 3221) اس تاخیر کی وجہ بھی ایک روایت میں بیان ہوئی ہے کہ آپ مسلمانوں کے اخلاق واعمال کی اصلاح کے لیے منبر پر تشریف فرما ہوئے اور وعظ کہتے ہوئے نماز عصر میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ (سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 394) تاہم جب حضرت عروہ بن زبیر نے مذکورہ حدیث سنائی تو نمازوں کے اوقات کی اس قدر اہمیت پر حیران رہ گئے اور حضرت عروہ سے سوال کیا کہ واقعی حضرت جبرائيل ؑ نے ان اوقات کے تعین کےلیے خود عملی طور پر رسول اللہ ﷺ کو تعلیم دی ہے؟ چنانچہ حضرت عروۃ نے باسند حدیث کا حوالہ دیا۔ اس کے بعد پابندئ اوقات کا یہ عالم تھا کہ پھر کبھی آپ نے نماز اداکرنے میں تاخیر نہیں کی، جیسا کہ روایات میں اس کی وضاحت ہے۔ (فتح الباري: 9/2)(3) حضرت ابو مسعود ؓ کا نام عقبہ بن عمرو انصاری ہے جنھوں نے معرکہ بدر میں شرکت فرمائی۔ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا امتیازی وصف یہ تھا کہ حاکم و محکوم کے مناصب سے بالاتر ہوکر ناصحانہ انداز میں فریضہ دعوت واصلاح سرانجام دینے کے خوگر تھے، چنانچہ حضرت امیر معاویہ ؓ کی طرف سے متعین کوفے کے گورنر حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے ایک مرتبہ عصر کی نماز میں کچھ تاخیر کی تو حضرت مسعود انصاری ؓ نے فورا ان کی اصلاح فرماتے ہوئے مذکورہ حدیث بیان کی، اور یہی جذبہ حضرت عروہ بن زبیر میں موجزن تھا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4007)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 521
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:522
522. حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز عصر اس حالت میں پڑھتے تھے کہ دھوپ ان کے حجرے میں ہوتی تھی قبل اس کے کہ (سایہ اس کی) دیواروں پر نمایاں ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:522]
حدیث حاشیہ: (1) امامت جبرائیل ؑ کی روایت سے تحدید اوقات کی اہمیت ثابت کرنے کے بعد خصوصیت کے ساتھ نماز عصر کی اہمیت اور اس کو اول وقت پڑھنے کی ضرورت کو بیان کیا جارہا ہے، کیونکہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ سے نماز عصر ہی میں تاخیر ہوئی تھی۔ چونکہ عصر کی نماز میں وقت مکروہ بھی شامل ہے، اس لیے اسے ادا کرتے وقت احتیاط کی ضرورت ہے، مبادا مکروہ وقت میں داخل ہو جائے۔ امام بخاری ؒ اس حدیث سے نماز عصر کا اول وقت ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں: اس سے یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز عصر ایک مثل سایہ دراز ہونے کے بعد ہوتی تھی، اس لیے کہ اس وقت حجرے کی دیواریں بہت اونچی نہ تھیں، صحن بھی کشادہ نہ تھا، ایسے حجروں میں دیواروں پر دھوپ ایک مثل کے بعد ہی ظاہر ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اول وقت نماز ادا کرنے کو بہترین عمل قرار دیا ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 170) قران مجید میں صلاة وسطیٰ کی حفاظت کے متعلق خصوصی ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ (البقرة: 238: 2) حدیث کے مطابق صلاة وسطیٰ سے مراد صلاة عصر ہے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1426(628)(2) ہم نے ترجمہ کرتے وقت بریکٹ میں لفظ سایہ کا اضافہ کیا ہے، کیونکہ سورج کے نیچےہونے سے دیواروں کا سایہ اوپرچڑھتا ہے، نیز اس حدیث کے بعض طرق میں اس کی وضاحت بھی ہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ خود بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز عصر اس وقت پڑھ لیتے تھے کہ دھوپ ابھی میرے حجرے میں ہوتی اور دیواروں کا سایہ ابھی نمایہ نہ ہوتا تھا۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 545، 546)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 522