112 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان قال: ثنا الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة قال: قدم عبد الله الشام فقرا سورة يوسف فقال له رجل: ما هكذا انزلت، قال: فقال عبد الله: ويحك او ويلك قراتها علي رسول الله صلي الله عليه وسلم فقال: «احسنت» فبينا هو يراجعه إذ وجد عبد الله منه ريح خمر فقال عبد الله اتشرب الخمر وتكذب بالقرآن؟ لا ابرح حتي تجلد فجلد112 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ: قَدِمَ عَبْدُ اللَّهِ الشَّامَ فَقَرَأَ سُورَةَ يُوسُفَ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: مَا هَكَذَا أُنْزِلَتْ، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَيْحَكَ أَوْ وَيْلَكَ قَرَأْتُهَا عَلَي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أَحْسَنْتَ» فَبَيْنَا هُوَ يُرَاجِعُهُ إِذْ وَجَدَ عَبْدُ اللَّهِ مِنْهُ رِيحَ خَمْرٍ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ أَتَشْرَبُ الْخَمْرَ وَتُكَذِّبُ بِالْقُرْآنِ؟ لَا أَبْرَحُ حَتَّي تُجْلَدَ فَجُلِدَ
112- علقمہ بیان کرتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تشریف لائے انہوں نے سورۂ یوسف کی تلاوت کی، تو ایک صاحب ان سے کہا: یہ اس طرح نازل نہیں ہوئی۔ راوی کہتے ہیں: تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہارا ستیاناس ہو(راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) تمہاری بربادی ہو، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسے تلاوت کیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا: ”تم نے ٹھیک پڑھا ہے۔“۔ ابھی ان دونوں حضرات کی بحث جاری تھی کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو اس شخص سے شراب کی بو محسوس ہوئی۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: کیا تم شراب پیتے ہو اور قرآن کی تکذیب کرتے ہو؟ میں تمہیں ضرور کوڑے لگواؤں گا، تو پھر اس شخص کو کوڑے لگائے گئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 5001، ومسلم: 801، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:5068، 5093، وأحمد فى ”مسنده“، برقم: 3661 برقم: 4114»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:112
فائدہ: اس سے ثابت ہوا کہ اہل علم سے بعض دفعہ اختلاف کرنے والے بیوقوف ہوتے ہیں یا نشے کی حالت میں ہوتے ہیں، تو اس چیز کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ اختلاف کرنے والا کس حالت میں ہے۔ اگر وہ قرآن و حدیث کی تکذیب کر رہا ہو تو اس کو سخت ڈانٹ پلانی چاہیے۔ شراب پینے والے کو درے لگائے جائیں گے۔ اس کی حالت دیکھ کر حاکم وقت اور قاضی فیصلہ کرے گا کہ کتنے کوڑے لگائے جائیں، 40۔ 80 یا کم۔ شراب پینا حرام ہے۔ اگر فیصلہ عدالت میں پہنچ جا تا ہے تو قرآن و حدیث کے مطابق اس کا فیصلہ کرنا چاہیے، اور اگر وہ فعل حد کو پہنچتا ہو تو حد کو نافذ کرنا فرض ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 112
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5001
5001. سیدنا علقمہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم حمص میں تھے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ نے سورہ یوسف پڑھی تو ایک شخص نے کہا: یہ اس طرح نازل نہیں ہوئی تھی۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے حضور اس سورت کو پڑھا تو آپ نے فرمایا: ”تو نے بہت اچھا پڑھا ہے۔“ پھر انہوں نے اس (اعتراض کرنے والے) کے منہ سے شراب کی بو محسوس کی تو فرمایا: تو دو گناہ ایک ساتھ کرتا ہے: اللہ کی کتاب کو جھٹلاتا ہے اور شراب نوشی کرتا ہے؟ پھر انہوں نے اس پر حد لگائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5001]
حدیث حاشیہ: یعنی وہاں کے حاکم سے کہلا بھیجا اس نے حد لگائی کیونکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو حمص کی حکومت نہیں ملی تھی البتہ کوفہ کے حاکم وہ ایک عرصہ تک رہے تھے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فتویٰ یہی ہے کہ کسی شخص کے منہ سے شراب کی بدبو آئے تو اسے حد لگا سکتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5001
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5001
5001. سیدنا علقمہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم حمص میں تھے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ نے سورہ یوسف پڑھی تو ایک شخص نے کہا: یہ اس طرح نازل نہیں ہوئی تھی۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے حضور اس سورت کو پڑھا تو آپ نے فرمایا: ”تو نے بہت اچھا پڑھا ہے۔“ پھر انہوں نے اس (اعتراض کرنے والے) کے منہ سے شراب کی بو محسوس کی تو فرمایا: تو دو گناہ ایک ساتھ کرتا ہے: اللہ کی کتاب کو جھٹلاتا ہے اور شراب نوشی کرتا ہے؟ پھر انہوں نے اس پر حد لگائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5001]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث کی عنوان کے ساتھ اس طرح مطابقت ہے کہ جب حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورہ یوسف کی تلاوت کی تو کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تلاوت کیا تھا تو آپ نے میری قراءت کی تحسین فرمائی تھی۔ 2۔ اس آدمی نے قرآن کریم کی تکذیب نہیں کی کیونکہ اسے جھٹلانے سے تو انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے بلکہ امت کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن کریم کے ایک حرف کا انکار کرتا ہے تو وہ کافر ہو جاتا ہے اس آدمی نے طرز ادا کا انکار کیا تھا کیونکہ اس نے کہا: یہ اس طرح نازل نہیں ہوئی اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے قرآنی سورت کا انکار نہیں کیا تھا، چنانچہ آپ نے اس کے جواب میں فرمایا: میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجود گی میں پڑھا تو آپ نے میری قراءت کو بنظر تحسین دیکھا تھا۔ اس آدمی نے جہالت قلت حفظ اور عدم ثبت کی وجہ سے ایسا کہا کیونکہ وہ اس وقت نشے کی حالت میں تھا۔ (فتح الباري: 63/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5001