(حديث مرفوع) حدثنا الوليد ، حدثنا الاوزاعي ، حدثنا يحيى ، عن ابي سلمة ، عن ابي هريرة . وابو داود ، قال: حدثنا حرب ، عن يحيى بن ابي كثير ، قال: حدثني ابو سلمة ، حدثنا ابو هريرة ، المعنى، قال: لما فتح الله على رسوله صلى الله عليه وسلم مكة، قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فيهم، فحمد الله، واثنى عليه، ثم قال:" إن الله حبس عن مكة الفيل، وسلط عليها رسوله والمؤمنين، وإنما احلت لي ساعة من النهار، ثم هي حرام إلى يوم القيامة، لا يعضد شجرها، ولا ينفر صيدها، ولا تحل لقطتها إلا لمنشد، ومن قتل له قتيل، فهو بخير النظرين: إما ان يفدي، وإما ان يقتل"، فقام رجل من اهل اليمن، يقال له: ابو شاه، فقال: يا رسول الله، اكتبوا لي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اكتبوا لابى شاه"، فقال عم رسول الله صلى الله عليه وسلم: إلا الإذخر، فإنه لقبورنا، وبيوتنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إلا الإذخر". فقلت للاوزاعي: وما قوله" اكتبوا لابي شاه"؟ وما يكتبوا له؟ قال: يقول: اكتبوا له خطبته التي سمعها. قال ابو عبد الرحمن: ليس يروى في كتابة الحديث شيء اصح من هذا الحديث، لان النبي صلى الله عليه وسلم امرهم، قال:" اكتبوا لابي شاه" ما سمع النبي صلى الله عليه وسلم، خطبته.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ . وَأَبُو دَاوُدَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَرْبٌ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، الْمَعْنَى، قَالَ: لَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ، قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمْ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْفِيلَ، وَسَلَّطَ عَلَيْهَا رَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ، وَإِنَّمَا أُحِلَّتْ لِي سَاعَةً مِنَ النَّهَارِ، ثُمَّ هِيَ حَرَامٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، لَا يُعْضَدُ شَجَرُهَا، وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا، وَلَا تَحِلُّ لُقَطَتُهَا إِلَّا لِمُنْشِدٍ، وَمَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ، فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ: إِمَّا أَنْ يَفْدِيَ، وَإِمَّا أَنْ يَقْتُلَ"، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، يُقَالُ لَهُ: أَبُو شَاهٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اكْتُبُوا لِي، فَقَالَ رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اكْتُبُوا لأبى شاهٍ"، فَقَالَ عَمُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِلَّا الْإِذْخِرَ، فَإِنَّهُ لِقُبُورِنَا، وَبُيُوتِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِلَّا الْإِذْخِرَ". فَقُلْتُ لِلْأَوْزَاعِيِّ: وَمَا قَوْلُهُ" اكْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ"؟ وَمَا يَكْتُبُوا لَهُ؟ قَالَ: يَقُولُ: اكْتُبُوا لَهُ خُطْبَتَهُ الَّتِي سَمِعَهَا. قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: لَيْسَ يُرْوَى فِي كِتَابَةِ الْحَدِيثِ شَيْءٌ أَصَحُّ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ، لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُمْ، قَالَ:" اكْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ" مَا سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، خُطْبَتَهُ.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر مکہ مکرمہ کو فتح کروا دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمدوثناء بیان کرنے کے بعد فرمایا: اللہ نے مکہ مکرمہ سے ہاتھیوں کو دور کیا اور اپنے رسول اور مومنین کو اس پر تسلط عطاء فرمایا: میرے لئے بھی اس میں قتال دن کے کچھ حصے میں حلال کیا گیا ہے اس کے بعد یہ قیامت تک کے لئے حرام ہے اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اس کے شکار کو خوفزدہ نہ کیا جائے اور یہاں کی گری پڑی چیز اٹھانا کسی کے لئے حلال نہیں الاّ یہ کہ وہ اس کا اعلان کر دے اور جس شخص کا کوئی عزیز مارا گیا ہو اسے دو میں سے کسی ایک بات کا اختیار ہے جو وہ اپنے حق میں بہتر سمجھے یا تو فدیہ لے لے یا پھر قاتل کو قصاصا قتل کر دے۔ _x000D_
یہ خطبہ سن کر یمن کا ایک آدمی کھڑا ہوا جس کا نام ابوشاہ تھا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! مجھے یہ خطبہ لکھ کر عنایت فرما دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ یہ خطبہ لکھ کر ابو شاہ کو دے دو اسی اثناء میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! اذخرنامی گھاس کو مستثنٰی کردیجئے کیونکہ وہ ہماری قبروں اور گھروں میں استعمال ہوتی ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے مستثنٰی کر دیا۔ _x000D_
راوی کہتے ہیں کہ میں نے امام اوزاعی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ ابوشاہ کو لکھ کر دے دو سے کیا مراد ہے؟ وہ اسے کیا لکھ کردیتے؟ انہوں نے فرمایا: کہ اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ ابوشاہ کو وہ خطبہ لکھ کر دے دو جو انہوں نے سنا ہے۔ نیز امام احمد رحمہ اللہ کے صاحبزادے عبداللہ فرماتے ہیں کہ کتابت حدیث کی اجازت سے متعلق اس سے زیادہ کوئی صحیح حدیث مروی نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو وہ خطبہ لکھنے کا حکم دیا تھا۔