(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا همام بن يحيى ، عن قتادة ، عن ابي الحكم البجلي ، عن ابن عمر ، قال، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من اتخذ كلبا غير كلب زرع او ضرع او صيد نقص من عمله كل يوم قيراط"، فقلت لابن عمر: إن كان في دار وانا له كاره، قال: هو على رب الدار الذي يملكها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي الْحَكَمِ الْبَجَلِيِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ اتَّخَذَ كَلْبًا غَيْرَ كَلْبِ زَرْعٍ أَوْ ضَرْعٍ أَوْ صَيْدٍ نَقَصَ مِنْ عَمَلِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ"، فَقُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ: إِنْ كَانَ فِي دَارٍ وَأَنَا لَهُ كَارِهٌ، قَالَ: هُوَ عَلَى رَبِّ الدَّارِ الَّذِي يَمْلِكُهَا.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص ایسا کتا رکھے جو کھیت کی حفاظت کے لئے بھی نہ ہو، جانوروں کی حفاظت کے لئے بھی نہ ہو اور نہ ہی شکاری کتا ہو تو اس کے ثواب میں روزانہ ایک قیراط کمی ہوتی رہے گی۔“ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ اگر کسی کے گھر میں کتا ہو اور میں وہاں جانے پر مجبور ہوں تو کیا حکم؟ انہوں نے فرمایا کہ اس کا گناہ گھر کے مالک پر ہو گا جو کتے کا مالک ہے۔