(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، قال: الرجل يتزوج ولا يفرض لها، يعني: ثم يموت، حدثنا سعيد ، عن قتادة ، عن خلاس وابي حسان الاعرج ، عن عبد الله بن عتبة بن مسعود ، انه قال: اختلفوا إلى ابن مسعود في ذلك شهرا او قريبا من ذلك، فقالوا: لا بد من ان تقول فيها؟ قال: فإني اقضي لها مثل صدقة امراة من نسائها، لا وكس ولا شطط، ولها الميراث، وعليها العدة"، فإن يك صوابا، فمن الله عز وجل، وإن يكن خطا، فمني ومن الشيطان، والله عز وجل ورسوله بريئان. فقام رهط من اشجع، فيهم الجراح ، وابو سنان ، فقالوا: نشهد ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى في امراة منا يقال لها: بروع بنت واشق، بمثل الذي قضيت. ففرح ابن مسعود بذلك فرحا شديدا، حين وافق قوله قضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: الرَّجُلُ يَتَزَوَّجُ وَلَا يَفْرِضُ لَهَا، يَعْنِي: ثُمَّ يَمُوتُ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ خِلَاسٍ وأَبي حسَّان الأَعرج ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّهُ قَالَ: اخْتَلَفُوا إِلَى ابْنِ مَسْعُودٍ فِي ذَلِكَ شَهْرًا أَوْ قَرِيبًا مِنْ ذَلِكَ، فَقَالُوا: لَا بُدَّ مِنْ أَنْ تَقُولَ فِيهَا؟ قَالَ: فَإِنِّي أَقْضِي لَهَا مِثْلَ صَدُقَةِ امْرَأَةٍ مِنْ نِسَائِهَا، لَا وَكْسَ وَلَا شَطَطَ، وَلَهَا الْمِيرَاثُ، وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ"، فَإِنْ يَكُ صَوَابًا، فَمِنْ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِنْ يَكُنْ خَطَأً، فَمِنِّي وَمِنْ الشَّيْطَانِ، وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَرَسُولُهُ بَرِيئَانِ. فَقَامَ رَهْطٌ مِنْ أَشْجَعَ، فِيهِمْ الْجَرَّاحُ ، وَأَبُو سِنَانٍ ، فَقَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى فِي امْرَأَةٍ مِنَّا يُقَالُ لَهَا: بَرْوَعُ بِنْتُ وَاشِقٍ، بِمِثْلِ الَّذِي قَضَيْتَ. فَفَرِحَ ابْنُ مَسْعُودٍ بِذَلِكَ فَرَحًا شَدِيدًا، حِينَ وَافَقَ قَوْلُهُ قَضَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عتبہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ لوگوں نے آ کر یہ مسئلہ پوچھا (کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے، مہر مقرر نہ کیا ہو اور خلوت صحیحہ ہونے سے پہلے وہ فوت ہو جائے تو کیا حکم ہے؟) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس وہ لوگ تقریبا ایک مہینے تک آتے رہے، ان کا یہی کہنا تھا کہ آپ کو اس مسئلے کا جواب ضرور دینا ہو گا، انہوں نے فرمایا کہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کر کے جس نتیجے تک پہنچا ہوں، وہ آپ کے سامنے بیان کر دیتا ہوں، اگر میرا جواب صحیح ہوا تو اللہ کی توفیق سے ہو گا، اور اگر غلط ہوا تو وہ میری جانب سے ہو گا، اللہ، اس کے رسول اس سے بری ہیں، فیصلہ یہ ہے کہ اس عورت کو اس جیسی عورتوں کا جو مہر ہو سکتا ہے، وہ دیا جائے گا، اسے میراث بھی ملے گی اور اس پر عدت بھی واجب ہو گی۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ سن کر قبیلہ اشجع کا ایک گروہ کھڑا ہوا جن میں سیدنا جراح اور سیدنا ابوسنان رضی اللہ عنہما بھی تھے، اور کہنے لگا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسہلم نے ہماری ایک عورت کے متعلق یہی فیصلہ فرمایا ہے جس کا نام بروع بنت واشق تھا، اس پر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بہت خوش ہوئے کہ ان کا فیصلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے موافق ہو گیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، محمد بن جعفر - وإن سمع من سعيد بن أبى عروبة بعد الاختلاط - قد توبع.