(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد وحسن ، قالا: حدثنا ثابت ، قال حسن ابو زيد، قال عبد الصمد ، قال: حدثنا هلال ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال: اسري بالنبي صلى الله عليه وسلم إلى بيت المقدس، ثم جاء من ليلته، فحدثهم بمسيره، وبعلامة بيت المقدس، وبعيرهم، فقال ناس، قال حسن: نحن نصدق محمدا بما يقول؟! فارتدوا كفارا، فضرب الله اعناقهم مع ابي جهل، وقال ابو جهل: يخوفنا محمد بشجرة الزقوم! هاتوا تمرا وزبدا، فتزقموا. وراى الدجال في صورته رؤيا عين، ليس رؤيا منام، وعيسى، وموسى، وإبراهيم، صلوات الله عليهم، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم عن الدجال؟ فقال:" اقمر هجانا، قال حسن: قال: رايته فيلمانيا اقمر هجانا، إحدى عينيه قائمة، كانها كوكب دري، كان شعر راسه اغصان شجرة، ورايت عيسى شابا ابيض، جعد الراس، حديد البصر، مبطن الخلق، ورايت موسى اسحم آدم، كثير الشعر، قال حسن الشعرة، شديد الخلق، ونظرت إلى إبراهيم، فلا انظر إلى إرب من آرابه، إلا نظرت إليه مني، كانه صاحبكم، فقال جبريل عليه السلام سلم على مالك، فسلمت عليه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ وَحَسَنٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، قَالَ حَسَنٌ أَبُو زَيْدٍ، قَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِلَالٌ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ، ثُمَّ جَاءَ مِنْ لَيْلَتِهِ، فَحَدَّثَهُمْ بِمَسِيرِهِ، وَبِعَلَامَةِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، وَبِعِيرِهِمْ، فَقَالَ نَاسٌ، قَالَ حَسَنٌ: نَحْنُ نُصَدِّقُ مُحَمَّدًا بِمَا يَقُولُ؟! فَارْتَدُّوا كُفَّارًا، فَضَرَبَ اللَّهُ أَعْنَاقَهُمْ مَعَ أَبِي جَهْلٍ، وَقَال أَبُو جَهْلٍ: يُخَوِّفُنَا مُحَمَّدٌ بِشَجَرَةِ الزَّقُّومِ! هَاتُوا تَمْرًا وَزُبْدًا، فَتَزَقَّمُوا. وَرَأَى الدَّجَّالَ فِي صُورَتِهِ رُؤْيَا عَيْنٍ، لَيْسَ رُؤْيَا مَنَامٍ، وَعِيسَى، وَمُوسَى، وَإِبْرَاهِيمَ، صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ، فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الدَّجَّالِ؟ فَقَالَ:" أَقْمَرُ هِجَانًا، قَالَ حَسَنٌ: قَالَ: رَأَيْتُهُ فَيْلَمَانِيًّا أَقْمَرَ هِجَانًا، إِحْدَى عَيْنَيْهِ قَائِمَةٌ، كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ، كَأَنَّ شَعْرَ رَأْسِهِ أَغْصَانُ شَجَرَةٍ، وَرَأَيْتُ عِيسَى شَابًّا أَبْيَضَ، جَعْدَ الرَّأْسِ، حَدِيدَ الْبَصَرِ، مُبَطَّنَ الْخَلْقِ، وَرَأَيْتُ مُوسَى أَسْحَمَ آدَمَ، كَثِيرَ الشَّعْرِ، قَالَ حَسَنٌ الشَّعَرَةِ، شَدِيدَ الْخَلْقِ، وَنَظَرْتُ إِلَى إِبْرَاهِيمَ، فَلَا أَنْظُرُ إِلَى إِرْبٍ مِنْ آرَابِهِ، إِلَّا نَظَرْتُ إِلَيْهِ مِنِّي، كَأَنَّهُ صَاحِبُكُمْ، فَقَالَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام سَلِّمْ عَلَى مَالِكٍ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شب معراج بیت المقدس کی سیر کرائی گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی رات واپس بھی آگئے اور قریش کو اپنے جانے کے متعلق اور بیت المقدس کی علامات اور ان کے ایک قافلے کے متعلق بتایا، کچھ لوگ یہ کہنے لگے کہ کیا محمد کی اس بات کی ہم تصدیق کر سکتے ہیں، یہ کہہ کر وہ دوبارہ کفر کی طرف لوٹ گئے، اللہ تعالیٰ نے ابوجہل کے ساتھ ان کی گردنیں بھی مار دیں۔ ایک مرتبہ ابوجہل نے کہا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تھوہڑ کے درخت سے ڈراتے ہیں، تم میرے پاس کھجور اور جھاگ لے کر آؤ، میں تمہیں تھوہڑ بنا کر دکھاتا ہوں۔ اسی شب معراج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کو اپنی آنکھوں سے دیکھا - جو خواب میں دیکھنا نہ تھا - نیز حضرت عیسی، حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم علیہم السلام کی بھی زیارت فرمائی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے دجال کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”میں نے اسے بڑے ڈیل ڈول کا اور سبزی مائل سفید رنگ والا پایا، اس کی ایک آنکھ قائم تھی اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کوئی چمکتا ہوا موتی ہو اور اس کے سر کے بال کسی درخت کی ٹہنیوں کی طرح تھے۔ میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھا تو وہ سفید رنگ کے جوان تھے، ان کے سر کے بال گھنگھریالے تھے، نگاہیں تیز تھیں، جسمانی اعتبار سے پتلے پیٹ والے تھے، میں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا تو وہ انتہائی گندمی رنگ اور گھنے بالوں والے تھے اور جسمانی اعتبار سے بڑے مضبوط تھے، نیز میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا، ان کے جسم کا کوئی عضو ایسا نہ تھا جو میں نے ان میں دیکھا ہو اور اپنے آپ میں وہ عضو اسی طرح نہ دیکھا ہو، گویا وہ ہو بہو تمہارے پیغمبر کی طرح ہیں، پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا: مالک کو - جو داروغہ جہنم ہے - سلام کیجئے، چنانچہ میں نے انہیں سلام کیا۔“