(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق وابن بكر ، قالا: انبانا ابن جريج ، قال: قلت: لعطاء اي حين احب إليك ان اصلي العشاء إماما او خلوا؟، قال: سمعت ابن عباس ، يقول: اعتم رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة بالعشاء، حتى رقد الناس واستيقظوا، ورقدوا واستيقظوا، فقام عمر بن الخطاب رضي الله عنه، فقال: الصلاة. قال عطاء: قال ابن عباس فخرج نبي الله صلى الله عليه وسلم، كاني انظر إليه الآن، يقطر راسه ماء، واضع يده على شق راسه، فقال:" لولا ان اشق على امتي، لامرتهم ان يصلوها كذلك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَابْنُ بَكْرٍ ، قَالَا: أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: قُلْتُ: لِعَطَاءٍ أَيُّ حِينٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ أَنْ أُصَلِّيَ الْعِشَاءَ إِمَامًا أَوْ خِلْوًا؟، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: أَعْتَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً بِالْعِشَاءِ، حَتَّى رَقَدَ النَّاسُ وَاسْتَيْقَظُوا، وَرَقَدُوا وَاسْتَيْقَظُوا، فَقَامَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: الصَّلَاةَ. قَالَ عَطَاءٌ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَخَرَجَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ الْآنَ، يَقْطُرُ رَأْسُهُ مَاءً، وَاضِعٌ يَدَهُ عَلَى شَقِّ رَأْسِهِ، فَقَالَ:" لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي، لَأَمَرْتُهُمْ أَنْ يُصَلُّوهَا كَذَلِكَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ عشا کی نماز کو اتنا مؤخر کیا کہ لوگ دو مرتبہ سوئے اور جاگے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آ کر عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! نماز، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے، وہ منظر اب بھی میری نگاہوں کے سامنے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سر پر رکھا اور فرمایا کہ ”اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں انہیں یہ حکم دیتا کہ وہ عشا کی نماز اسی وقت پڑھا کریں۔“