حدثنا سفيان ، عن مجالد ، عن الشعبي ، عن ابي سلمة ، عن عائشة ، قالت: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم واضعا يديه على معرفة فرس وهو يكلم رجلا، قلت: رايتك واضعا يديك على معرفة فرس دحية الكلبي وانت تكلمه. قال:" ورايت؟" قالت: نعم، قال: " ذاك جبريل عليه السلام وهو يقرئك السلام". قالت: وعليه السلام ورحمة الله وبركاته، جزاه الله خيرا من صاحب ودخيل، فنعم الصاحب، ونعم الدخيل ، قال سفيان: الدخيل: الضيف.حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَعْرَفَةِ فَرَسٍ وَهُوَ يُكَلِّمُ رَجُلًا، قُلْتُ: رَأَيْتُكَ وَاضِعًا يَدَيْكَ عَلَى مَعْرَفَةِ فَرَسِ دِحْيَةَ الْكَلْبِيِّ وَأَنْتَ تُكَلِّمُهُ. قَالَ:" وَرَأَيْتِ؟" قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: " ذَاكَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَهُوَ يُقْرِئُكِ السَّلَامَ". قَالَتْ: وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، جَزَاهُ اللَّهُ خَيْرًا مِنْ صَاحِبٍ وَدَخِيلٍ، فَنِعْمَ الصَّاحِبُ، وَنِعْمَ الدَّخِيلُ ، قَالَ سُفْيَانُ: الدَّخِيلُ: الضَّيْفُ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گھوڑے کے سر پر ہاتھ رکھ کر ایک آدمی سے باتیں کرتے ہوئے دیکھا، بعد میں میں نے عرض کیا کہ میں نے آپ کو دحیہ کلبی کے گھوڑے کے سر پر ہاتھ رکھے ہوئے ایک آدمی سے باتیں کرتے ہوئے دیکھا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم نے اسے دیکھا تھا؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جبرائیل علیہ السلام تھے اور تمہیں سلام کہہ رہے تھے، میں نے جب دیا " وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ " اللہ اسے جزائے خیر دے یعنی میزبان کو بھی اور مہمان کو بھی، کہ میزبان بھی کیا خوب ہے اور مہمان بھی کیا خوب ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف مجالد، وقد سلف بغير هذا السياق بإسناد صحيح برقم: 24281