حدثنا عمر بن علي المقدمي ، قال: سمعت حجاجا يذكر، عن مكحول ، عن عبد الرحمن بن محيريز ، قال: قلت لفضالة بن عبيد: ارايت تعليق يد السارق في العنق، امن السنة، قال: نعم، رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم " اتي بسارق فامر به فقطعت يده، ثم امر بها، فعلقت في عنقه" ، قال حجاج: وكان فضالة ممن بايع تحت الشجرة، قال ابو عبد الرحمن عبد الله بن احمد: قلت ليحيى بن معين: سمعت من عمر بن علي المقدمي شيئا؟ قال: اي شيء كان عنده؟ قلت: حديث فضالة بن عبيد في تعليق اليد، فقال: لا، حدثنا به عفان عنه.حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ حَجَّاجًا يَذْكُرُ، عَنْ مَكْحُولٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَيْرِيزٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِفَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ: أَرَأَيْتَ تَعْلِيقَ يَدِ السَّارِقِ فِي الْعُنُقِ، أَمِنَ السُّنَّةِ، قَالَ: نَعَمْ، رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أُتِيَ بِسَارِقٍ فَأَمَرَ بِهِ فَقُطِعَتْ يَدُهُ، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا، فَعُلِّقَتْ فِي عُنُقِهِ" ، قَالَ حَجَّاجٌ: وَكَانَ فَضَالَةُ مِمَّنْ بَايَعَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ عَبْد اللَّهِ بْن أَحْمَد: قُلْتُ لِيَحْيَى بْنِ مَعِينٍ: سَمِعْتَ مِنْ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيِّ شَيْئًا؟ قَالَ: أَيُّ شَيْءٍ كَانَ عِنْدَهُ؟ قُلْتُ: حَدِيثُ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ فِي تَعْلِيقِ الْيَدِ، فَقَالَ: لَا، حَدَّثَنَا بِهِ عَفَّانُ عَنْهُ.
عبدالرحمن بن محیریز کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت فضالہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا یہ بتائیے کہ کیا چور کا ہاتھ اس کے گلے میں لٹکانا سنت ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! میں نے دیکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چور کو لایا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا پھر حکم دیا تو اسے اس کے گلے میں لٹکا دیا گیا حضرت فضالہ رضی اللہ عنہ بیعت رضوان کے شرکاء میں سے تھے۔
امام احمد (رح) کے صاحبزادے عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن معین سے پوچھا کیا آپ نے عمر بن علی مقدمی سے کوئی حدیث سنی ہے؟ انہوں نے پوچھا کہ اس کے پاس کیا ہے؟ میں نے بتایا کہ حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کی حدیث جو چور کا ہاتھ گلے میں لٹکانے سے متعلق ہے انہوں نے فرمایا نہیں یہ حدیث ہم سے عفان نے بیان کی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لعنعنة الحجاج، وهو مدلس