حدثنا ابو اسامة ، اخبرني مسعر ، حدثني عمر بن قيس ، عن عمرو بن ابي قرة الكندي ، قال: عرض ابي على سلمان اخته فابى، وتزوج مولاة له، يقال لها: بقيرة، قال: فبلغ ابا قرة انه كان بين سلمان وحذيفة شيء، فاتاه يطلبه، فاخبر انه في مبقلة له، فتوجه إليه فلقيه معه زبيل فيه بقل، قد ادخل عصاه في عروة الزبيل، وهو على عاتقه، قال: ابا عبد الله، ما كان بينك وبين حذيفة؟ قال: يقول سلمان: وكان الإنسان عجولا سورة الإسراء آية 11، فانطلقا حتى اتيا دار سلمان، فدخل سلمان الدار، فقال: السلام عليكم، ثم اذن فإذا نمط موضوع على باب وعند راسه لبنات، وإذا قرطان، فقال: اجلس على فراش مولاتك الذي تمهد لنفسها، قال: ثم انشا يحدثه، قال: إن حذيفة كان يحدث باشياء يقولها رسول الله صلى الله عليه وسلم في غضبه لاقوام، فاسال عنها فاقول: حذيفة اعلم بما يقول، واكره ان يكون ضغائن بين اقوام، فاتي حذيفة، فقيل له: إن سلمان لا يصدقك ولا يكذبك بما تقول، فجاءني حذيفة، فقال: يا سلمان ابن ام سلمان! قلت: يا حذيفة ابن ام حذيفة، لتنتهين او لاكتبن إلى عمر، فلما خوفته بعمر تركني، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من ولد آدم انا، فايما عبد مؤمن لعنته لعنة او سببته سبة في غير كنهه، فاجعلها عليه صلاة" .حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، أَخْبَرَنِي مِسْعَرٌ ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ قَيْسٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قُرَّةَ الْكِنْدِيِّ ، قَالَ: عَرَضَ أَبِي عَلَى سَلْمَانَ أُخْتَهُ فَأَبَى، وَتَزَوَّجَ مَوْلَاةً لَهُ، يُقَالُ لَهَا: بُقَيْرَةُ، قَالَ: فَبَلَغَ أَبَا قُرَّةَ أَنَّهُ كَانَ بَيْنَ سَلْمَانَ وَحُذَيْفَةَ شَيْءٌ، فَأَتَاهُ يَطْلُبُهُ، فَأُخْبِرَ أَنَّهُ فِي مَبْقَلَةٍ لَهُ، فَتَوَجَّهَ إِلَيْهِ فَلَقِيَهُ مَعَهُ زَبِيلٌ فِيهِ بَقْلٌ، قَدْ أَدْخَلَ عَصَاهُ فِي عُرْوَةِ الزَّبِيلِ، وَهُوَ عَلَى عَاتِقِهِ، قَالَ: أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، مَا كَانَ بَيْنَكَ وَبَيْنَ حُذَيْفَةَ؟ قَالَ: يَقُولُ سَلْمَانُ: وَكَانَ الإِنْسَانُ عَجُولا سورة الإسراء آية 11، فَانْطَلَقَا حَتَّى أَتَيَا دَارَ سَلْمَانَ، فَدَخَلَ سَلْمَانُ الدَّارَ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، ثُمَّ أَذِنَ فَإِذَا نَمَطٌ مَوْضُوعٌ عَلَى بَابٍ وَعِنْدَ رَأْسِهِ لَبِنَاتٌ، وَإِذَا قُرْطَانِ، فَقَالَ: اجْلِسْ عَلَى فِرَاشِ مَوْلَاتِكَ الَّذِي تُمَهِّدُ لِنَفْسِهَا، قَالَ: ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُهُ، قَالَ: إِنَّ حُذَيْفَةَ كَانَ يُحَدِّثُ بِأَشْيَاءَ يَقُولُهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَضَبِهِ لِأَقْوَامٍ، فَأُسْأَلُ عَنْهَا فَأَقُولُ: حُذَيْفَةُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُ، وَأَكْرَهُ أَنْ يَكُونَ ضَغَائِنُ بَيْنَ أَقْوَامٍ، فَأُتِيَ حُذَيْفَةُ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ سَلْمَانَ لَا يُصَدِّقُكَ وَلَا يُكَذِّبُكَ بِمَا تَقُولُ، فَجَاءَنِي حُذَيْفَةُ، فَقَالَ: يَا سَلْمَانُ ابْنَ أُمِّ سَلْمَانَ! قُلْتُ: يَا حُذَيْفَةُ ابْنَ أُمِّ حُذَيْفَةَ، لَتَنْتَهِيَنَّ أَوْ لَأَكْتُبَنَّ إِلَى عُمَرَ، فَلَمَّا خَوَّفْتُهُ بِعُمَرَ تَرَكَنِي، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مِنْ وَلَدِ آدَمَ أَنَا، فَأَيُّمَا عَبْدٍ مُؤْمِنٍ لَعَنْتُهُ لَعْنَةً أَوْ سَبَبْتُهُ سَبَّةً فِي غَيْرِ كُنْهِهِ، فَاجْعَلْهَا عَلَيْهِ صَلَاةً" .
عمرو بن ابی قرہ کندی (رح) کہتے ہیں کہ میرے والد نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے سامنے اپنی بہن سے نکاح کی پیشکش کی لیکن انہوں نے انکار کردیا اور ان کی آزاد کردہ باندی " جس کا نام بقیرہ تھا " سے نکاح کرلیا پھر ابو قرہ کو معلوم ہوا کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ رنجش ہے تو وہ انہیں تلاش کرتے ہوئے آئے معلوم ہوا کہ وہ اپنی سبزیوں کے پاس ہیں ابوقرہ ادھر روانہ ہوگئے راستے میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوگئی جن کے ساتھ ایک ٹوکری بھی سبزی سے بھری ہوئی تھی انہوں نے اپنی لاٹھی اس ٹوکری کی رسی میں داخل کر کے اسے اپنے کندھے پر رکھا ہوا تھا میں نے ان سے عرض کیا کہ اے ابو عبداللہ! کیا آپ کے اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے درمیان کوئی رنجش ہے؟ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی " انسان بڑا جلد باز ہے " اور وہ دونوں چلتے رہے حتیٰ کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچ گئے۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ گھر کے اندرچلے گئے اور سلام کیا پھر ابوقرہ کو اندر آنے کی اجازت دی وہاں دروازے کے پاس ایک چادر پڑھی ہوئی تھی سرہانے کچھ اینٹیں رکھی ہوئی تھیں اور دو بالیاں پڑی ہوئی تھیں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اپنی باندی کے بستر پر بیٹھ جاؤ جس نے اپنے آپ کو تیار کرلیا تھا انہوں نے بات کا آغاز اور فرمایا کہ حذیفہ بہت ساری ایسی چیزیں بیان کرتے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں کچھ لوگوں سے کہہ دیتے تھے لوگ مجھ سے اس کے متعلق پوچھتے تو میں ان سے کہہ دیتا کہ حذیفہ ہی زیادہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں میں لوگوں کے درمیان نفرت بڑھانے کو اچھا نہیں سمجھتا لوگ حذیفہ کے پاس جاتے اور ان سے کہتے کہ سلمان آپ کی تصدیق کرتے ہیں اور نہ ہی تکذیب، تو ایک مرتبہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے ام سلمان کے بیٹے سلمان! میں نے بھی کہہ دیا ہے کہ اے ام حذیفہ کے بیٹھے حذیفہ! تم باز آجاؤ ورنہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھوں گا جب میں نے انہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خوف دلایا تو انہوں نے مجھے چھوڑ دیا حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں بھی اولاد آدم میں سے ہوں سو جس بندہ مؤمن پر میں نے لعنت ملامت کی ہو یا اس کے حق میں سخت سست کہا ہو تو اے اللہ! اسے اس کے حق میں باعث رحمت بنا دے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح إن صح سماع عمرو بن أبى قرة من سلمان